کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 252
’’بلاشبہ وہ مریض اور خوف زدہ شخص کے علاوہ کسی کو باجماعت نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔‘‘ رحمہ اللہ رحمہ اللہ:علامہ ابن قدامہ نے ان کے حوالے سے قلم بند کیا ہے: ’’ وَلَمْ یَکُنْ یُفَرِّقُ فِيْ وُجُوْبِ صَلَاۃِ الْجَمَاعَۃِ بَیْنَ الْمُسَافِرِ وَالْمُقِیْمِ ‘‘۔[1] ’’وہ مسافر او رمقیم کے درمیان باجماعت نماز کے وجوب کے مسئلے میں فرق نہیں کرتے تھے۔‘‘ ج:امام حسن بصری [2]کی رائے: ’’ إِنْ مَنَعَتْہُ أُمُّہُ عَنِ الْعِشَائِ فِيْ الْجَمَاعَۃِ شَفْقَۃً،لَمْ یُطِعْہَا‘‘۔[3] ’’اگر اس کی والدہ ازراہِ شفقت اسے باجماعت(نماز)عشاء سے روکے،تو وہ اس کی اطاعت نہ کرے۔‘‘ ’’ فَلْیُفْطِرْ،وَلَا قَضَائَ عَلَیْہِ،وَلَہُ أَجْرُ الصَّوْمِ،وَأَجْرُ الْبِرِّ‘‘۔ ’’وہ روزہ افطار کردے اور اس پر کوئی قضا نہیں اور اس کے لیے روزے
[1] ملاحظہ ہو: موسوعۃ فقہ إبراہیم النخعي ۲/ ۴۲۱۔ [2] امام حسن بصری: حسن بن ابی حسن، یسار، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام، ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے۔ … بقول امام نووی … مشہور امام تھے اور ہر فن میں ان کی عظمت پر اتفاق تھا۔ حافظ ذہبی کے الفاظ میں: ’’وہ اپنے زمانے کے لوگوں کے علم وعمل میں سردار تھے۔‘‘ (ملاحظہ ہو: تہذیب الأسماء واللغات ۱/ ۱۶۱؛ وسیر أعلام النبلاء ۴/ ۵۶۵)۔ [3] صحیح البخاري، کتاب الأذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ، ۲/ ۱۲۵۔