کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 251
۔و۔ بعض اکابر علمائے امت کا موقف نماز باجماعت کے متعلق امت کے بعض عالی مرتبت علمائے کرام کے اقوال اور پھر ان سے اخذ کردہ نتائج ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ۔ا۔ امت کے بعض اکابر علمائے کرام کے اقوال: ا:امام ابراہیم بن یزید [1] رحمہ اللہ کا قول: ’’ إِذَا رَأَیْتَ الرَّجُلَ یَتَہَاوَنُ فِيْ التَّکْبِیْرَۃِ الْأُوْلٰی فَاغْسِلْ یَدَکَ عَنْہُ ‘‘۔[2] ’’جب تم کسی شخص کو تکبیر اولیٰ سے لاپرواہی کرتے دیکھو،تو اس سے اپنے ہاتھ دھو لو۔‘‘(یعنی اس سے خیر کی کوئی امید نہ رکھیئے)۔ ب:امام ابراہیم نخعی [3] کا موقف: رحمہ اللہ:امام ابن حزم نے ان کے متعلق ذکر کیا ہے: ’’ أَنَّہُ کَانَ لَا یُرَخِّصُ فِيْ تَرْکِ الصَّلَاۃِ فِيْ الْجَمَاعَۃِ إِلَّا لِمَرِیْضٍ أَوْ خَائِفٍ ‘‘۔[4]
[1] امام ابراہیم بن یزید: التیمی، فقیہ، عابد الکوفہ، ابواسماء، ۹۲ھ میں فوت ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے، کہ وہ ۹۴ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۵/ ۶۰۔۶۱)۔ [2] المرجع السابق ۵/ ۶۲۔ [3] امام ابراہیم نخعی: ابراہیم بن یزید بن قیس بن اسود، ابوعمران، نخعی، امام، حافظ، فقیہِ عراق، ۹۶ھ میں فوت ہوئے۔ ان کی وفات کے موقع پر امام شعبی نے فرمایا: ’’ان کا خلا پورا کرنے والا کوئی نہیں چھوڑا گیا۔‘‘ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/ ۵۲۰۔ ۵۲۷)۔ [4] المحلّٰی، ۴۸۵ ۔ مسألۃ ۔، ۴/ ۲۷۶۔