کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 249
۔ہ۔ اہلِ ظاہر کا موقف توفیقِ الٰہی سے اس مقام پر اہلِ ظاہر کے دو علماء کے اقوال اور پھر ان سے اخذ کردہ نتائج درج کیے جائیں گے۔ ۱:اہلِ ظاہر میں سے دو علماء کے اقوال: ۱:امام داؤد ظاہری [1] کا قول: ’’ ہِيَ فَرْضٌ عَلَی الْأَعْیَانِ وَشَرْطٌ فِيْ الصِّحَّۃِ۔‘‘ [2] ’’وہ[فرضِ عین] ہے اور(نماز کے)صحیح ہونے کے لیے شرط ہے۔‘‘ ۲:امام ابن حزم [3] کا قول: ’’وَلَا تُجْزِیئُ صَلَاۃُ فَرْضٍ أَحَدًا مِنَ الرِّجَالِ إِذَا کَانَ بِحَیْثُ یَسْمَعُ الْأَذَانَ أَنْ یُصَلِّیَہَا إِلَّا فِيْ الْمَسْجِدِ مَعَ الْإِمَامِ۔فَإِنْ تَعَمَّدَ تَرْکَ ذٰلِکَ بِغَیْرِ عُذْرٍ بَطَلَتْ صَلَاتُہُ،فَإِنْ کَانَ بِحَیْثُ لَا یَسْمَعُ الْأَذَانَ،فَفَرْضٌ عَلَیْہِ أَنْ یُّصَلِّيَ مَعَ
[1] امام داؤد ظاہری: ان کے متعلق حافظ ذہبی نے تحریر کیا ہے: داؤد بن علی بن خلف، امام، (علم کا) سمندر، حافظ، علامہ، اپنے زمانے کے (بہت بڑے) عالم، ابوسلیمان، بغدادی، اہلِ ظاہر کے رئیس، ۲۰۰ھ میں پیدا اور ۲۷۰ھ میں فوت ہوئے۔ ( ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۱۳/ ۹۷۔۱۰۸)۔ [2] منقول از: کتاب المجموع ۴/ ۷۷؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۲/ ۱۲۶؛ وعمدۃ القاري ۵/ ۱۶۱۔ [3] امام ابن حزم: ان کے متعلق حافظ ذہبی نے لکھا ہے: وہ منفرد امام، (علم کا) سمندر، (مختلف) فنون ومعارف والے، ابومحمد، علی بن احمد بن سعید بن حزم، فقیہ، حافظ، متکلم، ادیب، وزیر، ظاہری، قرطبہ میں ۳۸۴ھ میں پیدا اور ۴۵۶ھ میں فوت ہوئے۔ ابوعبداللہ حمیدی نے ان کے بارے میں کہا: ابن حزم حدیث وفقہ کے حافظ، کتاب وسنت سے شرعی مسائل کا استنباط کرنے والے، سب علوم میں مہارت رکھنے والے، اپنے علم کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔ ہم نے کسی شخص میں فطانت، سرعتِ حفظ، سخاوتِ نفس اور دینداری کی خوبیاں اس طرح اکٹھی نہیں دیکھیں، جیسے کہ ان میں تھیں۔ (ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۱۸/ ۱۸۴۔۲۱۲)۔