کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 245
ان میں سے پہلا:بلاشبہ وہ[فرض] ہے،اسے چھوڑنے والا گناہ گار ہے،(البتہ)اکیلے نماز پڑھنے سے نماز ادا ہوجاتی ہے۔اصحاب احمد میں سے متاخرین کی اکثریت کا یہی قول ہے۔حنبل کی روایت میں امام احمد نے بھی واضح طور پر اسے بیان کیا ہے۔
ابوالحسن زعفرانی کی کتاب الاقناع میں ان سے منقول دوسری روایت کے مطابق وہ(نماز کے)[صحیح ہونے کی شرط] ہے۔اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔قاضی نے اسے بعض اصحاب سے نقل کیا ہے۔ابوالوفاء بن عقیل اور ابوالحسن تمیمی نے اس رائے کو پسند کیا ہے۔داود(ظاہری)اور ان کے اصحاب کا یہی قول ہے۔ابن حزم نے کہا ہے:’’وہ ہمارے سب اصحاب کا قول ہے۔‘‘
ب:باجماعت کے متعلق حضرت امام رحمہ اللہ کی ذاتی رائے سے آگاہی کے لیے درجِ ذیل اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
’’مفتی پر کتاب وسنّت کے خلاف فتویٰ دینا حرام ہے،اگرچہ وہ اس کے مذہب کے موافق ہو۔‘‘
پھر انہوں نے اس سلسلے میں مثالیں ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
’’ یُسْأَلُ:ہَلْ لِلرَّجُلِ رُخْصَۃٌ فِيْ تَرْکِ الْجَمَاعَۃِ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ؟فَیَقُوْلُ:’’نَعَمْ،لَہُ رُخْصَۃٌ ‘‘۔
وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَقُوْلُ:’’ لَا أَجِدُ لَکَ رُخْصَۃً ‘‘۔[1]
[1] أعلام الموقعین ۴/ ۲۳۹۔ ۲۴۴۔