کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 243
بنا پر اس کی سرزنش کی جائے گی،بلکہ اسے سزا دی جائے گی اور اس کی گواہی مسترد کی جائے گی۔‘‘ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یُؤْمَرُ بِالصَّلَاۃِ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ،فَإِنْ کَانَ لَا یُصَلِّيْ فَإِنَّہُ یُسْتَتَابُ،فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ۔وَإِذَا ظَہَرَ مِنْہُ الْاِہْمَالُ لِلصَّلَاۃِ لَمْ یُقْبَلْ قَوْلُہُ:’’ إِذَا فَرَغْتُ صَلَّیْتُ ‘‘،بَلْ مَنْ ظَہَرَ کِذْبُہُ لَمْ یُقْبَلْ قَوْلُہُ،وَیُلْزَمُ بِمَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ وَرَسُوْلُہُ ‘‘۔[1] ’’سب تعریف اللہ کے لیے،اسے مسلمانوں کے ساتھ نماز کا حکم دیا جائے گا۔اگر وہ(سرے سے)نماز(ہی)نہیں پڑھتا،تو اسے توبہ کرنے کے لیے کہا جائے گا۔اگر اس نے توبہ کرلی(تو بہتر)،وگرنہ اسے قتل کیا جائے گا۔[2] اگر نماز کے بارے میں اس کی لاپروائی ظاہر ہوئی،تو اس کا یہ کہنا:[فارغ ہو کر نماز ادا کرلوں گا] قبول نہیں ہوگا،بلکہ جس کا جھوٹ ظاہر ہوگیا،اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اور اس سے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کروائی جائے گی۔‘‘ ہ:امام ابن قیم [3] کا بیان: ا:باجماعت نماز کے متعلق دیگر علماء کی آراء نقل کرتے ہوئے حضرت امام رحمہ اللہ
[1] مجموع الفتاویٰ ۲۳/ ۲۵۴؛ والفتاویٰ الکبریٰ ۲/ ۲۷۹۔ [2] یہ بات اسلامی حکومت کے علاوہ کسی اور کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ [3] امام ابن قیم: ابوعبد اللہ، شمس الدین، محمد بن ابی بکر بن ایوب سعد بن حریز بن مکی، زین الدین، زرعی، دمشقی، ابن قیم الجوزیۃ کے نام سے مشہور، مختلف علوم میں بہت زیادہ کتابوں کے مؤلف، علم، مطالعہ اور تحریر وتصنیف کا شدید شوق رکھنے والے، ۶۹۱ھ میں پیدا اور ۷۵۱ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: ذیل طبقات الحنابلۃ ۲/ ۴۴۹؛ والدرر الکامنۃ في أعیان المائۃ الثامنۃ ۴/ ۲۱۔۲۳؛ والتقریب لفقہ ابن قیم الجوزیۃ، القسم الأول / ۱۷۔ ۲۵۲)۔