کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 242
سے مروی ہے،کہ بے شک انہوں نے فرمایا: ’’بلاشبہ ان پانچ نمازوں کا باجماعت نماز قائم کی جانے والی مسجدوں میں(ادا کیا جانا)ہدایت کی سنّتوں میں سے ہے … الخ وَالْمُصِّرُ عَلٰی تَرْکِ الصَّلَاۃِ فِيْ الْجَمَاعَۃِ رَجُلُ سُوْئٍ،یُنْکَرُ عَلَیْہِ،وَیُزْجَرُ عَلٰی ذٰلِکَ،بَلْ یُعَاقَبُ عَلَیْہِ،وَتُرَدُّ شَہَادَتُہُ،وَإِنْ قِیْلَ:’’إِنَّہَا سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ ‘‘۔[1] ’’اہلِ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے،کہ باجماعت نماز ان باتوں میں سے ہے،جن کی دین میں تاکید کی گئی ہے،سلف کی اکثریت،ائمہ اہلِ حدیث جیسے احمد،اسحق وغیرہما اور شافعی کے اصحاب کے ایک گروہ کے نزدیک وہ[فرضِ عین] ہے۔شافعی کے اصحاب میں سے کچھ گروہوں اور ان کے علاوہ بعض اور(علماء)کی رائے میں وہ[فرضِ کفایہ] ہے۔اصحاب شافعی کے ہاں یہی رائے راجح ہے۔باجماعت نماز چھوڑنے پر اصرار کرنے والا شخص[بُرا] ہے۔اسے اگرچہ[سنّت مؤکَّدہ] کہا گیا ہے،لیکن(پھر بھی)اسے ترک کرنے والے کا احتساب کیا جائے گا۔اس
[1] مجموع الفتاویٰ ۲۳/ ۲۵۱۔۲۵۲۔