کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 241
ج:علامہ شمس الدین ابن قدامہ [1] کا قول: ’’ اَلْجَمَاعَۃُ وَاجِبَۃٌ عَلَی الرِّجَالِ الْمُکَلَّفِیْنَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ ‘‘۔[2] ’’مکلف مردوں پر ہر فرض نماز کے لیے جماعت[واجب] ہے۔‘‘ د:شیخ الاسلام ابن تیمیہ[3]کے اقوال: ذیل میں اس بارے میں ان کے تین اقوال ملاحظہ فرمائیے: [4] ’’مساجد میں ادا کردہ باجماعت نماز اسلام کے ظاہری شعائر اور ہدایت دینے والی سنّتوں میں سے ہے،جیسے کہ صحیح(مسلم)میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ
[1] شمس الدین ابن ابی عمر ابن قدامہ: عبدالرحمن بن محمد بن احمد بن قدامہ، مقدسی، ۵۹۷ھ میں پیدا اور ۶۸۲ھ میں فوت ہوئے۔ امام نووی کی نگاہ میں وہ ان کے سب سے جلیل القدر استاذ اور بقول علامہ یونینی فقہ حنبلی میں سیادت ان پر ختم ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: الذیل علٰی طبقات الحنابلۃ ۲/ ۳۰۴۔۳۰۸)۔ [2] الشرح الکبیر ۲/۲۔۔ [3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ: احمد بن عبدالحلیم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن ابی القاسم بن خضر بن محمد بن تیمیۃ، حرانی، دمشقی، امام، فقیہ، مجتہد، محدّث، حافظ، مفسر، اصولی، زاہد، شیخ الاسلام، انتہائی نامور شخصیتوں میں سے ایک، ۶۶۱ھ میں پیدا اور ۷۲۸ھ میں فوت ہوئے۔ ( ملاحظہ ہو: الذیل علٰی طبقات الحنابلۃ ۲/ ۳۸۷۔۴۰۵)۔ [4] مجموع الفتاویٰ ۲۳/ ۲۵۰۔۲۵۱۔