کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 236
ج:قاضی ابوشجاع اصبہانی [1] کا قول: ’’ وَصَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ ‘‘۔[2] ’’باجماعت نماز سنّت مؤکَّدہ ہے۔‘‘ د:امام نووی [3] کی رائے: امام رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے: ’’ اَلْجَمَاعَۃُ فَرْضُ عَیْنٍ فِيْ الْجُمْعَۃِ۔وَأَمَّا فِيْ غَیْرِہَا مِنَ الْمَکْتُوْبَاتِ فَفِیْہَا أَوْجُہٍ:اَ لْأَصَحُّ أَنَّہَا فَرْضُ کِفَایَۃٍ،وَالثَّانِيْ سُنَّۃٌ،وَالثَّالِثُ:فَرْضُ عَیْنٍ،قَالَہُ مِنْ أَصْحَابِنَا ابْنُ الْمُنْذِرِ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ۔وَقِیْلَ:’’ إِنَّہُ قَوْلُ الشَّافِعِیِّ۔رحمہم اللّٰه۔‘‘[4] ’’جمعہ کے لیے جماعت[فرضِ عین] ہے۔دیگر فرض نمازوں(کی جماعت کے حکم)کے بارے میں(مختلف)آراء ہیں۔سب سے صحیح بات یہ ہے،کہ بے شک وہ[فرضِ کفایہ] ہے۔دوسرا(قول یہ ہے،کہ
[1] قاضی ابوشجاع اصبہانی: احمد بن حسن بن احمد اصبہانی، [غایۃ الاختصار] کے مؤلف، چالیس برس سے زیادہ مدت بصرہ میں شافعی مذہب کی تعلیم دینے والے، علامہ سبکی نے ان کا تذکرہ پانچ سو ہجری کے بعد فوت ہونے والوں میں کیا۔ (ملاحظہ ہو: طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ۶/ ۱۵؛ وطبقات الشافعیۃ لابن قاضي شہبۃ الدمشقي ۲/ ۲۹۔ ۳۰)۔ [2] غایۃ الاختصار (المطبوع مع کفایۃ الأخیار ۱/ ۲۵۵)۔ [3] امام نووی: یحییٰ بن شرف بن مری، حزامی، حورابی، شافعی، شیخ، امام، علامہ، محی الدین، ابوزکریا، شیخ الاسلام، استاذ المتأخرین، آئندہ آنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی حُجّت، طریقۂ سلف کی طرف دعوت دینے والے، ۶۷۶ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ۸/ ۳۹۵)۔ [4] روضۃ الطالبین وعمدۃ المتقین ۱/ ۳۳۹۔ نیز ملاحظہ ہو: المنہاج (المطبوع مع شرحہ مغني المحتاج ۱/ ۲۲۹)۔