کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 234
[1] کی رائے: حضرت امام رحمہ اللہ کا باجماعت نماز کے متعلق موقف ان کی حسبِ ذیل عبارات سے واضح ہوتا ہے: ۱:[بَابُ فَرْضِ الْجَمَاعَۃِ وَالْأَعْذَارِ الَّتِيْ تُبِیْحُ تَرْکَہَا]۔[2] [باجماعت نماز کی فرضیّت اور ان عذروں کے متعلق باب،جن کی بنا پر اسے چھوڑنا جائز ہے] ۲: حضرت ابن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق ان کی تحریر: ’’ فِيْ سُؤَالِ ابْنِ أُمِّ مَکْتُوْمٍ رضی اللّٰهُ عنہ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنْ یُرَخِّصَ لَہُ فِيْ تَرْکِ إِتْیَانِ الْجَمَاعَاتِ،وَقَوْلِہِ صلي اللّٰه عليه وسلم:’’ اِئْتِہَا وَلَوْ حَبْوًا‘‘ أَعْظَمُ الدَّلِیْلِ عَلٰی أَنَّ ہٰذَا أَمْرٌ حَتْمٌ لَاَنَدْبٌ،إِذْ لَوْ کَانَ إِتْیَانُ الْجَمَاعَاتِ عَلٰی مَنْ یَسْمَعُ النِّدَائَ لَہَا غَیْرَ فَرْضٍ لَأَخْبَرَہُ صلي اللّٰه عليه وسلم بِالرُّخْصَۃِ فِیْہِ،لِأَنَّ ہٰذَا جَوَابٌ خَرَجَ عَلٰی سُؤَالٍ بِعَیْنِہٖ،وَمُحَالٌ أَنْ لَّا یُوْجَدُ لِغَیْرِ الْفَرِیْضَۃِ رُخْصَۃٌ‘‘۔[3] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کے جماعت چھوڑنے کی اجازت طلب کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی:[جماعت کے لیے آؤ،اگرچہ گھسٹ کر ہی آؤ] میں اس کی سب سے بڑی دلیل ہے،کہ یہ
[1] امام ابن حبّان: محمد بن حبان بن احمد بن حبّان، ابوحاتم، تمیمی، بستی، حافظ، علامہ، متعدد کتابوں کے مصنف، فقہ، لغت، حدیث اور وعظ کے خزانہ، بہت ہی عقل ودانش والے، ۳۵۴ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: تاریخ الإسلام (حوادث ووفیات ۳۵۱۔۳۸۰ھ) ص۱۱۲۔ ۱۱۳)۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان ۵/ ۴۱۱۔ [3] المرجع السابق ۵/ ۴۱۴۔۴۱۵۔