کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 230
حِبَّانَ ‘‘۔[1]
’’محدّثین کی ایک جماعت جیسے ابوثور،ابن خزیمہ،ابن منذر اور ابن حبان نے باجماعت نماز کے[فرضِ عین] ہونے کے قول کو اختیار کیا ہے۔‘‘
انہی شافعی محدّثین کی رائے اچھی طرح سمجھنے کے لیے درجِ ذیل تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
[2] کا قول:
وہ فرمایا کرتے تھے:
’’ اَلصَّلَاۃُ فِيْ الْجَمَاعَۃِ وَاجِبَۃٌ۔لَا یَسَعُ أَحَدٌ تَرْکَہَا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ،تَعَذَّرَبِہٖ ‘‘۔[3]
’’نماز کا باجماعت ادا کرنا(واجب)ہے۔کسی کے لیے بھی ماسوائے اس کے عذر کے،اسے چھوڑنے کی گنجائش نہیں۔‘‘
امام ابن خزیمہ [4] کی رائے:
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۲/ ۱۲۶۔ نیز ملاحظہ ہو: المجموع ۴/ ۷۷؛ وکفایۃ الأخیار في حلّ غایۃ الاختصار ۱/ ۲۵۵۔
[2] امام ابوثور: ابراہیم بن خالد، بغدادی، اہل بغداد کے فقیہ، مفتی اور کبار محدّثین اور دین کے نامور ائمہ میں سے ایک، مسائل شرعیہ کے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف، ۲۴۰ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: کتاب طبقات الفقہاء الشافعیۃ للعبادي ص ۲۲؛ وتاریخ بغداد ۶/ ۶۵)۔
[3] منقول از: الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف ۴/ ۱۳۸؛ نیز ملاحظہ ہو: المغني ۳/ ۵؛ وتفسیر القرطبي ۱/ ۴۳۹؛ وفقہ الإمام أبي ثور ص ۲۲۱۔
[4] امام ابن خزیمہ: ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیسابوری، ۳۱۱ھ میں فوت ہوئے۔ ان کے استاذ ربیع نے فرمایا: ’’ہم نے ابن خزیمہ سے جو استفادہ کیاہے، وہ اس سے زیادہ ہے، جو کہ انہوں نے ہم سے کیا۔‘‘ (ملاحظہ ہو: طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ۳/ ۱۱۸؛ ومقدمۃ صحیح ابن خزیمۃ للدکتور مصطفٰی الأعظمي ص ۷ و ۱۱)۔