کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 23
میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں] کہنے والا شخص، اس قدر مخفی انداز سے صدقہ کرنے والا شخص،کہ اس کے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے خرچ کیے ہوئے کی خبر نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ کو خلوت میں(اس طرح)یاد کرنے والا شخص،کہ اس کی آنکھیں(آنسوؤں)سے بہہ جائیں۔‘‘ اور امام مالک کی روایت میں ہے: ’’وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُتَعَلِّقٌ بِالْمَسْجِدِ،إِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی یَعُوْدَ إِلَیْہِ۔‘‘ [1] ’’مسجد سے نکلنے پر اس کے ساتھ اٹکے ہوئے دل والا شخص،یہاں تک کہ وہ اس کی طرف پلٹ آئے۔‘‘ امام نووی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد[وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِيْ الْمَسَاجِدِ] کی شرح میں لکھا ہے: ’’وَمَعْنَاہُ شَدِیْدُ الْحُبِّ لَہَا،وَالْمُلَازَمَۃُ لِلْجَمَاعَۃِ فِیْہَا،وَلَیْسَ مَعْنَاہُ دَوَامَ الْقُعُوْدِ فِيْ الْمَسْجِدِ۔‘‘ [2] ’’اس کا معنٰی مسجد میں ہمیشہ بیٹھے رہنا نہیں،بلکہ مقصود مساجد اور ان میں نمازِ باجماعت سے چمٹے رہنے سے شدید محبت ہے۔‘‘ علامہ عینی حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وَفِیْہِ فَضِیْلَۃُ مَنْ یُلَازِمُ الْمَسْجِدَ لِلصَّلَاۃِ مَعَ الْجَمَاعَۃِ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ بَیْتُ اللّٰہِ،وَبَیْتُ کُلِّ تَقِيٍّ،وَحَقِیْقٌ عَلَی
[1] الموطأ ، کتاب الشعر، باب ما جاء فيْ المتحابین فيْ اللّٰہ، جزء من رقم الحدیث ۱۴، ۲؍۹۵۲۔ [2] شرح النوويْ ۷؍۱۲۱۔