کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 227
ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’ فَقِیْلَ ہِيَ ’’صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ‘‘ سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ فَقَطْ،وَہٰذَا ہُوَ الْمَعْرُوْفُ عَنْ أَصْحَابِ أَبِيْ حَنِیْفَۃَ،وَأَکْثَرِ أَصْحَابِ مَالِکٍ،وَکَثِیْرٍ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ،وَیُذْکَرُ رِوَایَۃً عَنْ أَحْمَدَ‘‘۔[1] ’’کہا گیا ہے:’’وہ[یعنی باجماعت نماز] صرف[سنّت مؤکَّدہ] ہے۔(امام)ابوحنیفہ کے(سب)اصحاب،امام مالک کے اکثر اصحاب اور(امام)شافعی کے اصحاب کی ایک بڑی تعداد کے(موقف کے)متعلق یہی بات مشہور ہے۔(امام)احمد سے(بھی)ایک روایت اسی طرح ذکر کی گئی ہے۔‘‘ تنبیہ: [سنّت مؤکَّدہ] کے متعلق یہ سمجھنا،کہ[اس کے ترک میں کچھ گناہ نہیں] نادرست ہے،کیونکہ اس طرح اس میں اور[سنّت] میں کچھ فرق نہ رہے گا۔ اس بارے میں صحیح بات یہ ہے،کہ اس سے مراد یہ ہے،کہ[اسے کرنے سے ثواب اور چھوڑنے سے گناہ ہوتا ہے۔] امام ابن قیم رقم طراز ہیں: ’’ وَقَالَتِ الْحَنَفِیَّۃُ وَالْمَالِکِیَّۃُ:’’ہِيَ سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ‘‘،وَلٰکِنَّہُمْ یُؤَثِّمُوْنَ تَارِکَ السُّنَنِ الْمُؤَکَّدَۃِ،وَیُصَحِّحُوْنَ الصَّلَاۃَ بِدُوْنِہَا۔ وَالْخَلَافُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَنْ قَالَ:’’إِنَّہَا وَاجِبَۃٌ‘‘،لَفْظِيٌّ،
[1] الفتاویٰ الکبریٰ ۳/ ۲۶۹۔