کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 226
ج:علامہ احمد بن محمد در دیر [1]کا قول: ’’(اَلْجَمَاعَۃُ):أيْ فِعْلُ الصَّلَاۃِ فِيْ جَمَاعَۃٍ بِإِمَامٍ(بِفَرْضٍ)وَلَوْ فَائِتًا أَوْ کَفَائِیًا کَالْجَنَازَۃِ(غَیْرِ الْجُمْعَۃِ)سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ‘‘۔[2] ’’(جماعۃ)یعنی فرض نماز کا امام کے ساتھ باجماعت ادا کرنا،وہ فوت شدہ ہو یا فرض کفایہ،جیسے نمازِ جنازہ ہے،ما سوائے نمازِ جمعہ کے[سنّت مؤکَّدہ] ہے۔‘‘ د:شیخ صالح الآبی ازہری کا قول: ’’ اَلْجَمَاعَۃُ بِفَرْضٍ غَیْرِ جُمْعَۃٍ سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ ‘‘۔[3] ’’نماز جمعہ کے علاوہ(دیگر)فرض نمازوں کا باجماعت ادا کرنا[سنّت مؤکَّدہ] ہے۔‘‘ ۔۲۔ مالکی علماء کے اقوال سے معلوم ہونے والی دو باتیں ا:بعض مالکی علماء نے باجماعت نماز کو[سنّت] قرار دیا ہے۔ ب:بعض نے اسے[سنّت مؤکدہ] کہا ہے،جیسے کہ ابن جزی،دردیر اور آبی کے مذکورہ بالا اقوال سے واضح ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اس بات کا ذکر کیا
[1] علامہ احمد بن محمد در دیر: احمد بن محمد بن احمد، عدوی، ابوالبرکات، الدر دیر کے لقب سے مشہور، فقہائے مالکیہ میں فاضل شخصیت، اپنے زمانے میں یکتائے روزگار، متعدد کتابوں کے مؤلف، ۱۲۰۱ھ میں فوت ہوئے۔ ( ملاحظہ ہو: شجرۃ النور الزکیۃ ص ۳۵۹؛ والأعلام ۱ / ۲۴۴)۔ [2] الشرح الصغیر علی أقرب المسالک إلی مذہب الإمام مالک ۱/ ۵۷۸۔ [3] جواہر الإکلیل شرح مختصر خلیل ۱/ ۷۶۔