کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 225
۔ب۔ مالکی علماء کا موقف توفیقِ الٰہی سے اس مقام پر پہلے مالکی علمائے کرام کے اقوال،پھر ان سے حاصل شدہ نتائج درج کیے جائیں گے۔ ۔۱۔ مالکی علمائے کرام کے اقوال ا:حافظ ابن جزی غرناطی [1] کا قول: ’’ وَہِيَ فِيْ الْفَرَائِضِ سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ،وَأَوْجَبَہَا الظَّاہِرِیَّۃُ‘‘۔[2] ’’وہ(یعنی جماعت)فرض نمازوں کے لیے[سنّت مؤکَّدہ] ہے۔اہلِ ظاہر نے اسے[واجب] قرار دیا ہے۔‘‘ ب:علامہ خلیل بن اسحاق [3] کا قول: ’’ اَلْجَمَاعَۃُ بِفَرْضٍ غَیْرِ جُمْعَۃٍ سُنَّۃٌ ‘‘۔[4] ’’جمعہ کے علاوہ دیگر فرضی نمازوں کا باجماعت ادا کرنا[سنّت] ہے۔‘‘
[1] حافظ ابن جزی غرناطی: محمد بن احمد بن محمد بن عبداللہ ابن جُزَی، کلبی، ابوالقاسم، غرناطہ کے اصولِ فقہ اور لغت کے علماء میں سے، [کتاب التسہیل لعلوم القرآن] اور متعدد دیگر کتابوں کے مؤلف، ۷۴۱ھ میں فوت ہوئے۔ ( ملاحظہ ہو: الدرر الکامنۃ ۳/ ۴۴۶؛ والأعلام ۶/ ۲۲۱)۔ [2] قوانین الأحکام الشرعیۃ ومسائل الفروع الفقہیۃ ص ۸۳۔ [3] علامہ خلیل بن اسحاق: خلیل بن اسحاق بن موسیٰ، ضیاء الدین، جندی، مصر کے مالکی فقیہ، قاہرہ میں تعلیم کے بعد وہیں مالکی مذہب کے مفتی، فقہ میں علامہ الحاوی کی طرز پر ایک مفید مختصر کتاب کے مؤلف، ۷۶۷ھ اور ایک دوسرے قول کے مطابق ۷۷۶ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: الدرر الکامنۃ ۲/ ۱۷۵؛ والأعلام للزرکلي ۱/ ۳۶۴)۔ [4] مختصر خلیل (مطبوع مع مواہب الجلیل من أدلۃ الخلیل) ۱/ ۲۵۵۔