کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 223
ي:علامہ محمد انور کشمیری [1] کا قول:
’’ وَلَنَا فِیْہَا قَوْلَانِ:اَ لْأَوَّلُ:’’ إِنَّہَا سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ ‘‘۔
وَالثَّانِيْ:’’ إِنَّہَا وَاجِبَۃٌ ‘‘۔
وَقَالَ صَاحِبُ الْبَحْرِ:’’ إِنَّ أَدْنَی الْوُجُوْبِ وَأَعْلَی السُّنَّۃِ الْمُؤَکَّدَۃِ وَاحِدٌ،فَلَمْ یَبْقَ خِلَافٌ ‘‘۔[2]
’’ہمارے اس بارے میں دو اقوال ہیں:
پہلا:بلاشبہ وہ[سنّت مؤکَّدہ] ہے۔
دوسرا:یقینا وہ[واجب] ہے۔
البحر(الرائق)کے مؤلف لکھتے ہیں:
[واجب] کا ادنیٰ مرتبہ اور[سنّت مؤکَّدہ] کا اعلیٰ رتبہ(دونوں)ایک ہیں،اس طرح(دونوں اقوال میں حقیقی)اختلاف باقی نہیں رہتا۔‘‘
۔۲۔
حنفی علماء کے اقوال سے معلوم ہونے والی تیرہ باتیں
۱:حضراتِ احناف کے عام مشایخ کے نزدیک باجماعت نماز[واجب] ہے۔
ب:ان مشایخ کرام نے کتاب وسنّت،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر بلا انقطاع مداومت کرنے اور امت کے عملی تواتر سے استدلال کیا ہے۔
ج:بعض علمائے احناف نے اسے[سنّت مؤکَّدہ] کہا ہے،لیکن ان کا اسے[واجب] قرار دینے والوں سے حقیقی اختلاف نہیں،بلکہ محض لفظی نزاع ہے،کیونکہ
[1] علامہ محمد انور کشمیری: اپنے وقت کے بہت بڑے حنفی عالم، ۱۲۹۲ھ کو کشمیر میں پیدا اور ۱۳۵۲ھ کو دیوبند میں فوت ہوئے۔ ( ملاحظہ ہو: مقدمۃ فیض الباري للشیخ البنوري ص ۱۸۔۱۹)۔
[2] فیض الباري شرح صحیح البخاري ۲/ ۱۸۹۔