کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 203
’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سعید بن یربوع کے گھر تشریف لائے اور ان کی بینائی ختم ہونے پر ان سے تعزیت کی۔(علاوہ ازیں انہیں یہ بھی)فرمایا: ’’ لَا تَدَعِ الْجُمُعَۃَ وَلَا الصَّلَاۃَ فِيْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جمعہ اور(باجماعت)نماز نہ چھوڑنا۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:’’ لَیْسَ لِيْ قَائِدٌ ‘‘۔ ’’مجھے لانے والا کوئی نہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’ فَنَحْنُ نَبْعَثُ إِلَیْکَ بِقَائِدٍ ‘‘۔ ’’سو ہم آپ کو لانے والا شخص بھیج دیتے ہیں۔‘‘ ’’ فَبَعَثَ إِلَیْہِ بِغُلَامٍ مِنَ السَّبِيِّ ‘‘۔[1] ’’تو انہوں نے قیدیوں میں سے ایک غلام ان کی طرف بھیج دیا۔‘‘ امام عبدالرزاق نے ثابت بن حجاج کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا: ’’عمر بن خطاب نماز(پڑھانے)کے لیے تشریف لائے۔لوگوں کی طرف رخ فرمایا اور مؤذن کو حکم دیا،تو وہ اٹھا۔پھر فرمایا: ’’ وَاللّٰہِ! لَا نَنْتَظِرُ لِصَلَاتِنَا أَحَدًا ‘‘۔ ’’واللہ! ہم اپنی نماز کے لیے کسی کا بھی انتظار نہیں کرتے۔‘‘ پھر ارشاد فرمایا: ’’ مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَتَخَلَّفُوْنَ،یَتَخَلَّفُ بِتَخَلُّفِہِمْ آخَرُوْنَ۔
[1] منقول از: کنز العمال، کتاب الصلاۃ من قسم الأفعال، الباب الخامس في الجماعۃ وفضلہا وأحکامہا، أعذار الجماعۃ، رقم الروایۃ ۲۳۰۵۱، ۸/ ۳۰۷۔