کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 202
							
						
								
’’ فَقَدْ عُمَرُ رضی اللّٰهُ عنہ رَجُلًا فِيْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ،فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ،فَجَائَ،فَقَالَ:’’أَیْنَ کُنْتَ؟‘‘۔
’’عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نمازِ فجر میں غیر حاضر پایا،تو اسے پیغام بھجوایا۔وہ شخص حاضر ہوا،تو دریافت فرمایا:’’تم کہاں تھے؟‘‘ 
اس نے عرض کیا:
’’ کُنْتُ مَرِیْضًا،وَلَوْلَا أَنَّ رَسُوْلَکَ أَتَانِيْ،لَمَا خَرَجْتُ ‘‘۔
’’میں بیمار تھا۔اگر آپ کا قاصد میرے پاس نہ آتا،تو میں(گھر سے)نہ نکلتا۔‘‘ 
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ فَإِنْ کُنْتَ خَارِجًا إِلٰی أَحَدٍ،فَاخْرُجُ إِلَی الصَّلَاۃِ ‘‘۔[1]
’’پس اگر تم کسی کی طرف جاسکو،تو نماز کے لیے(ہی)نکلو۔‘‘ 
امام عبدالرزاق کی روایت میں ہے:
’’ إِنْ کُنْتَ مُجِیْبًا شَیْئًا،فَأَجِبِ الْفَلَاحَ ‘‘۔[2]
’’اگر تم کسی بھی چیز(کے لیے دعوت)قبول کرو،تو(حَيَّ عَلَی)الفلاح(یعنی نماز)کی دعوت قبول کرو۔‘‘ 
امام ابن سعد نے عبدالرحمن بن مِسور بن مخرمہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:
						    	
						    
						    	[1] 	مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلاۃ، باب من سمع النداء، رقم الروایۃ ۱۹۲۱، ۱/ ۴۹۹۔ ۵۰۰؛ ومصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الصلوات، من قال: إذا سمع المنادي فلیجب، ۱/ ۳۴۴۔ ۳۴۵: الفاظِ حدیث ابن أبي شیبہ کے ہیں۔
[2] 	مصنف عبدالرزاق ۱/ ۵۰۰۔
						    	
							
						