کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 201
السُّوْقِ،وَمَسْکَنُ سُلَیْمَانَ بَیْنَ السُّوْقِ وَالْمَسْجِدِ النَّبَوِيِّ فَمَرَّ عَلَی الشِّفَائِ،اُمِّ سُلَیْمَانَ۔ فَقَالَ لَہَا:’’لَمْ أَرَ سُلَیْمَانَ فِيْ الصُّبْحِ ‘‘۔ ’’بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سلیمان بن ابی حثمہ کو نمازِ صبح میں گم پایا۔عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بازار کی طرف گئے اور سلیمان کی رہائش گاہ بازار اور مسجد نبوی کے درمیان میں تھی۔وہ اُمّ سلیمان شفاء کے پاس سے گزرے،تو انہوں نے ان سے فرمایا: ’’میں نے صبح(کی نماز)میں سلیمان نہیں دیکھے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’ إِنَّہُ بَاتَ یُصَلِّيْ،فَغَلَبَتْہُ عَیْنَاہُ ‘‘۔ ’’بے شک وہ رات بھر نمازِ(تہجد)پڑھتے رہے اور(نمازِ فجر کے وقت)ان پر نیند غالب آگئی۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ لَأَنْ أَشْہَدَ صَلَاۃَ الصُّبْحِ فِيْ الْجَمَاعَۃِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُوْمَ لَیْلَۃً ‘‘۔[1] ’’یقینا مجھے نمازِ فجر کی جماعت میں حاضر ہونا(ساری)رات قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ امام عبدالرزاق اور امام ابن ابی شیبہ نے ابوہیثم سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:
[1] الموطأ، کتاب صلاۃ الجماعۃ، باب ما جاء في العتمۃ والصبح، رقم الروایۃ ۷، ۱/ ۱۳۱۔