کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 198
’’بے شک عبد العزیز بن مروان نے ادب سیکھنے کی خاطر اپنے بیٹے عمر کو مدینہ(طیبہ)بھیجا اور صالح بن کیسان کو ان کا خیال رکھنے کے لیے لکھا۔ وہ(یعنی صالح)ان سے(باجماعت)نمازوں کی پابندی کرواتے۔ایک دن وہ باجماعت نماز سے پیچھے رہ گئے،تو انہوں نے پوچھا:’’تجھے کس چیز نے روکا؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’میری کنگھی کرنے والی خاتون میرے بال جما رہی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا:’’تمہارے بالوں کا جمانا اس قدر اہمیت حاصل کرچکا ہے،کہ تم اسے(باجماعت)نماز پر ترجیح دیتے ہو؟‘‘ انہوں نے اس بارے میں ان کے والد کو لکھا۔ (ان کے والد)عبدالعزیز نے ایک قاصد بھیجا۔اس نے ان کے پاس پہنچ کر ان کے بال مونڈنے تک ان سے بات(تک)نہ کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے … دیگر باتوں کے ساتھ … باجماعت نماز ادا کرنے کی اس تربیت نے کیا رنگ دکھایا؟ یہی بیٹا خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے بیسیوں سال بعد آنے کے باوجود[خلیفہ راشد] کہلایا۔رَحِمَہُ اللّٰہُ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً،وَوَالِدَہُ،وَمُعَلِّمَہُ،وَجَعَلَنَا وَأَوْلَادَنَا عَلٰی دَرْبِہِمْ۔إِنَّہُ جَوَّادٌ کَرِیْمٌ۔ ۱۶:باجماعت عشاء وفجر کی حفاظت کی مرض الموت میں تلقین: امام ابن ابی شیبہ نے ابن ابی لیلیٰ کے حوالے سے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ) ’’ أَنَّہُ قَالَ فِيْ مَرَضِہِ الَّذِيْ مَاتَ فِیْہِ:’’ أَلَا اِحْمِلُوْنِيْ ‘‘۔