کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 197
اس نے عرض کیا:’’ لَا‘‘۔ ’’نہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’ لَمَا فَاتَکَ مِنْہَا خَیْرٌ مِنْ مَائَۃٍ نَاقَۃِ،کُلُّہَا سُوْدُ الْعَیْنِ‘‘۔[1] ’’(باجماعت نماز کا)جو حصہ تم سے چھوٹ گیا ہے،وہ سو اونٹنیوں سے بہتر ہے،جو کہ سب سیاہ آنکھوں والی ہوں۔‘‘ سبحان اللہ! باز پُرس کے اُس مبارک دور اور آج کے اس جدید دور کے اسباب میں کس قدر اختلاف ہے! وہ تکبیرِ تحریمہ رہ جانے پر محاسبہ کررہے ہیں اور آج ہم میں سے باپوں کی ایک بہت بڑی تعداد نماز نہ پڑھنے پر بھی پوچھ گچھ کی روادار نہیں۔إِلَی اللّٰہِ الشَّکْوٰی[2] فَإِنَّا لِلّٰہِ وِإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ۱۵:باجماعت نماز سے پیچھے رہنے پر بیٹے کی تادیب: حافظ ذہبی نے ابویعقوب کے حوالے سے نقل کیا ہے،کہ: ’’ أَنَّ عَبْدَ الْعَزِیْزِ بْنَ مَرْوَانَ بَعَثَ ابْنَہُ عُمَرَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ یَتَأَدَّبُ بِہَا،وَکَتَبَ إِلٰی صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ یَتَعَاہَدُہُ۔ وَکَانَ یُلْزِمُہُ الصَّلَوٰتِ،فَأَبْطَأَ یَوْمًا،فَقَالَ:’’مَا حَبَسَکَ؟‘‘ قَالَ:’’کَانَتْ مُرَجِّلَتِيْ تُسَکِّنُ شَعْرِيْ۔‘‘ فَقَالَ:’’بَلَغَ مِنْ تَسْکِیْنِ شَعْرِکَ أَنْ تُؤْثِرَہُ عَلَی الصَّلَاۃِ۔‘‘ وَکَتَبَ بِذٰلِکَ إِلٰی وَالِدِہِ۔فَبَعَثَ عَبْدُ الْعَزِیْزِ رَسُوْلًا إِلَیْہِ۔فَمَا کَلَّمَہُ حَتّٰی حَلَقَ شَعْرَہُ ‘‘۔[3]
[1] المصنف، کتاب الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ في جماعۃ، رقم الروایۃ ۲۰۲۱، ۱/ ۵۲۸۔ ۵۲۹۔ [2] اللہ تعالیٰ ہی کے حضور اس بُری حالت کا شکوہ ہے! [3] سیر أعلام النبلاء ۵/ ۱۱۶۔