کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 189
’’ سَمِعَ عَامِرٌ [1] اَلْمُؤَذِّنَ،وَہُوَ یَجُوْدُ بِنَفْسِہٖ،فَقَالَ:’’خُذُوْا بِیَدِيْ۔‘‘ فَقِیْلَ:’’إِنَّکَ عَلِیْلٌ ‘‘۔ قَالَ:’’أَسْمَعُ دَاعِيَ اللّٰہِ،فَلَا أُجِیْبُہُ ‘‘۔ فَأَخَذُوْا بِیَدِہِ،فَدَخَلَ مَعَ الْإِمَامِ فِيْ الْمَغْرِبِ،فَرَکَعَ رَکْعَۃً،ثُمَّ مَاتَ ‘‘۔[2] ’’عامر رحمہ اللہ نے مؤذن کو(اذان دیتے ہوئے)سنا اور(تب)وہ جان کنی کے عالَم میں تھے،تو فرمایا:’’میرے ہاتھ کو پکڑو(اور مجھے مسجد پہنچاؤ) عرض کیا گیا:’’بلاشبہ آپ بیمار ہیں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’اللہ تعالیٰ کے بلاوے کو سُنوں اور قبول نہ کروں۔‘‘(یعنی ایسا کرنا میری برداشت سے باہر ہے)۔ انہوں نے ان کا ہاتھ تھاما اور وہ جا کر مغرب(کی نماز)میں امام کے ساتھ شامل ہوگئے۔ایک رکعت ادا کی اور فوت ہوگئے۔‘‘ رَحِمَہُ اللّٰہُ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً۔ یہ تھے وہ خوش نصیب لوگ،جنہوں نے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی شان وعظمت کو جانا،پہچانا اور اس پر بہ دل وجان یقین کیا۔ اے اللہ کریم! ہم ناکاروں اور ہماری اولادوں کو ایسے نصیب والے حضرات
[1] عامر: ابن عبد اللہ بن الزبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ، صدیق اکبر کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا کے پوتے، امام ربّانی، ابوالحارث، مدنی، ۱۲۰ھ کے بعد فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۵/ ۲۱۹)۔ [2] المرجع السابق ۵/ ۲۲۰۔