کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 187
’’ أَجَلْ،وَلٰکِنِّيْ أَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ(یَقُوْلُ):’’حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ،حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘‘،فَمَنْ سَمِعَہَا فَلْیَأْتِہَا،وَلَوْ حَبْوًا،وَلَوْ زَحْفًا ‘‘۔[1] ’’(جی)ہاں،لیکن میں مؤذن کو[حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ،حَيَّ عَلَی الْفَـلَاحِ] کہتے ہوئے سن رہا ہوں اور جو کوئی اسے(یہ کہتے ہوئے)سنے،اسے چاہیے،کہ وہ اس(یعنی نماز باجماعت)کے لیے آئے،چاہے ہاتھوں اور گھٹنوں پر گھسٹ کر یا سرین پر رینگ کر آئے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ کَانَ الرَّبِیْعُ بْنُ خَیْثَمٍ یُقَادُ إِلَی الصَّلَاۃِ،وَبِہِ الْفَالِجُ‘‘۔[2] ’’فالج کی حالت میں ربیع بن خیثم کو نماز کے لیے لے جایا جاتا تھا۔‘‘ مزید برآں،انہیں معمولی قسم کا نہیں،بلکہ بہت سنگین نوعیت کا فالج تھا۔ان کے حسبِ ذیل بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے: ’’ مَا یَسُرُّنِيْ أَنَّ ہٰذَا الَّذِيْ بِيْ بِأَعْتٰی الدَّیْلَمِ عَلَی اللّٰہِ‘‘۔[3] ’’مجھے یہ پسند نہیں،کہ جو(بیماری)مجھے ہے،وہ دیلم [4] میں سے اللہ تعالیٰ کے سب سے نافرمان شخص کو بھی ہو۔‘‘
[1] المصنف، کتاب الصلوات، من کان یشہد الصلاۃ وہو مریض لا یدعہا، ۱/ ۳۵۰۔ [2] ملاحظہ ہو: الطبقات الکبریٰ ۶ض ۱۸۹؛ نیز ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۴/ ۲۶۰؛ وتفسیر القرطبي ۱۸/ ۲۵۱۔ [3] سیر أعلام النبلاء ۴/ ۲۶۰۔ [4] (دیلم): سے مراد دشمن ہیں۔ علامہ حموی لکھتے ہیں: الدیلم: سرزمینِ یمامہ میں بنوعبس قبیلے کا ایک چشمہ ہے۔ (منقول از: ہامش سیر أعلام النبلاء ۴/ ۲۶۰)۔