کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 186
’’ابيّ رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے دعا کی،کہ ان کے مرنے تک بخار اُن سے جدا نہ ہو،البتہ وہ حج وعمرے،جہاد فی سبیل اللہ اور فرض باجماعت نماز ادا کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔
(اس کے بعد)موت تک جو انسان بھی انہیں چھوتا،(ان کے جسم میں)بخار کی حدت محسوس کرتا۔‘‘
حضرت ابيّ رضی اللہ عنہ کی گناہ معاف کروانے کی رغبت کس قدر شدید تھی،کہ اس مقصد کے لیے تاحیات بخار میں مبتلا ہونے کی دعا کرتے ہیں،لیکن ساتھ ہی باجماعت نماز میں شرکت کی خواہش کس قدر قوی تھی،کہ مبتلائے بخار ہونے کے بعد چار باتوں سے محروم نہ ہونے کی پہلے ہی سے التجا کی اور ان میں سے ایک باجماعت نماز تھی۔
ج:شدید فالج میں دو آدمیوں کے سہارے مسجد آنا:
امام ابن ابی شیبہ نے ابوحیان کے والد کے حوالے سے ربیع بن خیثم رحمہ اللہ [1]سے روایت نقل کی ہے:
’’ أَنَّہُ کَانَ بِہٖ مَرَضٌ،فَکَانَ یُہادیٰ بَیْنَ رَجُلَیْنِ،فَیُقَالُ لَہُ:’’یَا أَبَا زَیْدٍ! إِنَّکَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ فِيْ عُذْرٍ ‘‘۔
’’بے شک وہ بیمار تھے اور انہیں دو آدمیوں کے سہارے(باجماعت نماز کی خاطر)لے جایا جاتا تھا۔ان سے کہا جاتا:’’ اے ابوزید! ان شاء اللہ آپ کا(مسجد میں نہ جانے کا)عذر(معقول)ہے۔‘‘
وہ جواب دیتے:
[1] ربیع بن خیثم: امام، عابد، ابویزید ثوری، کوفی، بہت بڑی شخصیات میں سے ایک تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایات نقل کیں۔ کہا گیا ہے، کہ وہ ۶۵ھ سے پہلے فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۴/ ۲۵۸ و ۲۶۲)۔