کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 185
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’ کَفَّارَاتٌ ‘‘۔ ’’وہ گناہوں کو مٹانے والی ہیں۔‘‘ ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’ وَإِنْ قَلَّتْ؟‘‘۔ ’’اگرچہ وہ معمولی(ہی)ہو؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’ وَإِنْ شَوْکَۃٌ،فَمَا فَوْقَہَا ‘‘۔ ’’اگرچہ وہ کانٹے(کا چبھنا)ہو یا اس سے زیادہ۔‘‘ [1] انہوں(یعنی راوی)نے بیان کیا: ’’ فَدَعَا أُبَيٌّ رضی اللّٰهُ عنہ عَلٰی نَفْسِہٖ أَنْ لَّا یُفَارِقَہُ الْوَعْکُ حَتّٰی تَمُوْتَ فِيْ أَنْ لَّا یُشْغِلَہُ عَنْ حَجٍّ وَلَا عُمْرَۃٍ،وَلَا جِہَادٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ،وَلَا صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ فِيْ جَمَاعَۃٍ۔ فَمَا مَسَّہُ إِنْسَانٌ إِلَّا وَجَدَ حَرَّہُ حَتّٰی مَاتَ ‘‘۔[2]
[1] شاید اس کے دو معانی ہیں: ایک یہ، کہ وہ کانٹے کے چبھنے سے زیادہ بڑی تکلیف ہو اور دوسرا معنٰی، کہ وہ تکلیف کانٹے کے چبھنے کی تکلیف سے بھی زیادہ معمولی ہو۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: تفسیر أبي السعود ۱/ ۷۳ (ارشادِ ربانی: {اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا}۔ (سورۃ البقرۃ/ جزء من الآیۃ ۲۶ کی تفسیر)۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۱۱۱۸۳، ۱۷/ ۲۷۶، ۲۷۸؛ ومسند أبي یعلٰی الموصلي، رقم الحدیث ۲۲۔ (۹۹۵)، ۲/ ۲۸۰۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ حافظ ہیثمی نے لکھا ہے: ’’اسے احمد اور ابویعلٰی نے روایت کیا ہے اور اس کے [راویان ثقہ] ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد ۲/ ۳۰۲)۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو حسن] اور شیخ حسین سلیم اسد نے [جید] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۱۷/ ۲۷۸؛ وہامش مسند أبي یعلٰی ۲/ ۲۸۰)۔