کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 184
فِيْ الصَّفِّ ‘‘۔[1]
’’بے شک میں نے دیکھا،کہ ہم میں سے کھلے نفاق والے منافق کے سوا کوئی اور شخص اس(یعنی باجماعت نماز)سے پیچھے نہ رہتا۔بلاشبہ(بیمار)آدمی کو دو آدمیوں کے سہارے لا کر صف میں کھڑا کیا جاتا۔‘‘
علامہ نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’ وَفِيْ ہٰذَا کُلِّہِ تَأْکِیْدُ أَمْرِ الْجَمَاعَۃِ،وَتَحَمُّلِ الْمُشَقَّۃِ فِيْ حُضُوْرِہَا،وَأَنَّہُ إِذَا أَمْکَنَ الْمَرِیْضُ وَنَحْوُہُ التَّوَصُّلَ إِلَیْہَا اِسْتَحَبَّ لَہُ حُضُوْرُہَا ‘‘۔[2]
’’اس میں باجماعت نماز کی تاکید اور اس میں حاضری کی خاطر مشقّت کا برداشت کرنا ہے۔(اس میں یہ بھی ہے،کہ)جب مریض وغیرہ کے لیے باجماعت نماز میں پہنچنا ممکن ہو،تو اس کے لیے اس میں حاضر ہونا مستحب ہے۔‘‘
ب:حالتِ بخار میں باجماعت نماز میں شمولیت کی دعا:
امام احمد اور امام ابویعلٰی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
’’ أَرَأَیْتَ ہٰذِہِ الْأَمْرَاضَ الَّتِيْ تُصِیْبُنَا مَالَنَا بِہَا؟‘‘۔
’’ہم پر آنے والی بیماریوں سے ہمیں کچھ ملنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟‘‘
[1] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الہدیٰ، جزء من رقم الروایۃ ۲۵۷۔ (۶۵۴)، ۱/ ۴۵۳۔
[2] شرح النووي ۵/ ۱۵۷۔