کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 180
کو ایسے پاک باز اور بلند ہمت لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیے۔اِنَّکَ جَوَّادٌ کَرِیْمٌ۔ علاوہ ازیں انہوں نے چالیس سال کے طویل عرصے میں ایک دفعہ بھی باجماعت نماز نہ چھوڑی۔امام ابن سعد ہی نے ان کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے فرمایا: ’’ مَا فَاتَتْہُ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ مُنْذُ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً،وَلَا نَظَرَ فِيْ أَقْفَائِہِمْ ‘‘۔[1] ’’چالیس سال سے ان کی(کوئی)با جماعت نماز فوت نہیں ہوئی اور نہ ہی انہوں نے ان(یعنی باجماعت نماز میں شامل ہونے والوں)کی گدیوں کو دیکھا ہے۔‘‘ ان کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے،کہ انہوں نے چالیس سال کے عرصے میں ہر نماز صفِ اوّل میں ادا کی ہے،اسی لیے نماز میں شریک لوگوں کی گدیاں دیکھنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملا۔رَحِمَہُ اللّٰہُ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً وَجَعَلَنَا وَأَوْلَادَنَا عَلٰی دَرْبِہٖ آمِیْن یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ۔ ج:ربیعہ بن یزید [2]رحمہ اللہ: وہ خود فرماتے ہیں: ’’ مَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ مُنْذُ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً إِلَّا وَأَنَا
[1] الطبقات الکبریٰ ۵/ ۱۳۱؛ نیز ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۴/ ۲۲۱۔ [2] ابواشعث ربیعہ بن یزید: ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام، ابواشعث، ربیعہ بن یزید دمشقی کے نام سے مشہور تھے، کیونکہ ان کے گھر والے دمشق کے تھے۔ سعید بن عبدالعزیز نے کہا: ’’ہمارے ہاں دمشق میں مکحول اور ربیعہ بن یزید سے عمدہ عبادت کرنے والا کوئی نہ تھا۔‘‘ بغرض جہاد افریقہ گئے، جہاں بربریوں نے انہیں قتل کردیا۔ ــــ جَعَلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنَ الشُّہَدَائِ ــــ۔ (ملاحظہ ہو: ریاض النفوس ۱/ ۸۴)۔