کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 177
اس کے ساتھ ساتھ داخلی محاذ پر خارجی فتنے کی سرکوبی کی جارہی تھی۔[1] اے اللہ کریم! ہم ناکاروں کو بے کار حُجّت بازی کی بجائے عملِ خیر کی توفیق عطا فرما دیجیے۔اِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔ ۳:کشتی میں باجماعت نماز کا اہتمام کرنا: امام ابن ابی شیبہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن ابی عتبہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا: ’’ سَافَرْتُ مَعَ أَبِيْ سَعِیْدٍ وَأَبِيْ الدَّرْدَائِ،وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللّٰهُ عنہم،… قَالَ حُمَیْدٌ:[2] وَنَاسٍ قَدْ سَمَّاہُمْ …،فَکَانَ إِمَامُنَا یُصَلِّيْ بِنَا فِيْ السَّفِیْنَۃِ قَائِمًا،وَنُصَلِّيْ خَلْفَہُ قَائِمًا‘‘۔[3] ’’میں نے ابوسعید،ابوالدرداء اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ سفر کیا۔… حمید نے بیان کیا:انہوں نے اور لوگوں کے نام بھی ذکر کیے … تو ہمارے امام کشتی میں کھڑے ہو کر ہمیں نماز پڑھاتے اور ہم بھی ان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے تھے۔‘‘ اس روایت میں یہ بات واضح ہے،کہ یہ حضرات دورانِ سفر کشتی میں باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
[1] ملاحظہ ہو: التاریخ الاسلامي ۴/ ۲۴۸۔ ۲۵۰۔ [2] حمید: عبداللہ بن ابی عتبہ کے شاگرد۔ [3] منقول از: فتح الباري للحافظ ابن رجب ۵/ ۲۴۶۔ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري للحافظ ابن حجر ۱/ ۴۸۹؛ وعمدۃ القاري ۴/ ۱۰۹۔ علامہ عینی نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/ ۱۰۹)۔