کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 176
’’السَّلَامُ عَلَیْکَ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘۔ ’’میں نے عمر بن عبدالعزیز کو خناصرہ [1] میں دیکھا،جب کہ وہ خلیفہ تھے،کہ مؤذن ان کے دروازے پر سلام عرض(کرتے ہوئے)کہتا: [اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ،وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ]۔ ’’(اے)امیر المومنین! آپ پر سلامتی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔‘‘ ’’ فَمَا یَقْضِيْ سَلَامَہُ،حَتّٰی یَخْرُجَ إِلَی الصَّلَاۃِ ‘‘۔[2] ’’اس کے سلام کے(الفاظ)مکمل کرنے سے پیشتر،وہ نماز کے لیے نکل جاتے۔‘‘ اللہ اکبر! باجماعت نماز کی خاطر ان کا شوق وذوق اور اہتمام کس قدر تھا! ہم میں سے نمازی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا طرزِ عمل کیا ہے؟پھر اپنے غلط طرزِ عمل کی وکالت کی خاطر کثرتِ اشغال کا شیطانی بہانہ کس قدر عام ہے! کیا ہماری مشغولیات امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز کی مصروفیات سے تعداد اور اہمیت میں زیادہ ہیں،کہ جن کی خلافت میں شام،حجاز،خراسان،مصر اور افریقہ شامل تھے۔[3] کیا ہماری ذمہ داریاں ایسے خلیفہ سے زیادہ اہم ہیں،جن کے دورِ خلافت میں ایک طرف قسطنطنیہ کا محاصرہ جاری تھا،تو دوسری طرف آذربائیجان میں ترکوں کی غارت گری کا مقابلہ کیا جارہا تھا اور تیسری جانب اسلامی لشکر فرانس پر چڑھائی کررہا تھا اور
[1] (خناصرہ): حلب کے مضافات اور قنسرین کے مقابل بادیہ کی جانب ایک قصبہ۔ (ملاحظہ ہو: معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع ۲/ ۵۵۱ ؛ ومعجم البلدان ۲/ ۴۴۶)۔ استاذ محمود شاکر لکھتے ہیں: آج کل وہ [خناصر] کے نام سے مشہور ہے اور حلب کے جنوبی جانب اس کے مضافات میں سے ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش التاریخ الإسلامي ۴/ ۲۴۱) ۔ [2] الطبقات الکبریٰ ۵/ ۳۵۹۔ [3] ملاحظہ ہو: التاریخ الإسلامي ۴/ ۲۴۵۔ ۲۴۶۔