کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 174
أَثَرِہِ الْأَجْرَ ‘‘۔ فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم:’’ إِنَّ لَکَ مَا احْتَسَبْتَ ‘‘۔[1] ’’انصار میں سے ایک شخص کا گھر مدینہ(طیبہ)میں(مسجد سے)سب سے زیادہ دور تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی کوئی نماز جانے نہ پاتی تھی۔ہم لوگوں کو ان پر ترس آیا،تو میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ ایک گدھا خرید لیں،جو آپ کو سورج کی وجہ سے ہونے والی زمین کی حدّت اور اس کے کیڑے مکوڑوں سے بچائے۔‘‘ انہوں نے کہا:’’سنو! واللہ! مجھے یہ پسند نہیں،کہ میرا گھر محمد۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے گھر سے متصل ہو۔‘‘ انہوں(یعنی حضرت ابی رضی اللہ عنہ)نے کہا:’’مجھے یہ بات بہت گراں گزری،یہاں تک کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی۔‘‘ انہوں نے بیان کیا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا،تو انہوں نے وہی بات کہی،جو مجھ سے کہی تھی۔انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں(مزید)عرض کیا،کہ وہ(مسجد کی طرف اپنے جانے اور واپس آنے والے)قدموں کا اجر چاہتے ہیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’بے شک تمہارے لیے تمہاری چاہت کے مطابق اجر ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے،کہ انہوں نے عرض کیا:
[1] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل کثرۃ الخطا إلی المساجد، رقم الحدیث ۲۷۸۔ (۶۶۳)، ۱/ ۴۶۱۔