کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 162
فَإِنْ کَانَ بِہِ حَاجَۃٌ اِغْتَسَلَ،وَإِلَّا تَوَضَّأَ،وَخَرَجَ ‘‘۔[1] ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس(یعنی رات)کے اوّلین حصے میں سوتے تھے اور اس کے آخری حصے میں اٹھتے اور نماز(تہجد)پڑھتے تھے۔پھر اپنے بستر کی طرف تشریف لے جاتے۔جب مؤذن اذان دیتا،تو جلدی سے اٹھ جاتے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت ہوتی،تو غسل فرماتے،وگرنہ وضو کرتے اور(نمازِ فجر کے لیے)تشریف لے جاتے۔‘‘ صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ’’ قَالَتْ:’’وَثَبَ‘‘۔ وَلَا،وَاللّٰہِ! مَا قَالَتْ:’’قَامَ ‘‘۔[2] ’’انہوں(یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا)نے کہا:’’[وَثَبَ] ’’یعنی جلدی سے اٹھ بیٹھتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی قسم! انہوں نے یہ نہیں کہا:’’[قَامَ]‘‘[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے۔]‘‘ امام نووی لفظ[وَثَبَ] کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’ أيْ قَامَ بِسُرْعَۃٍ ‘‘۔[3] ’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اٹھتے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اذان سن کر اس طرح اٹھنا،بلاشک وشبہ باجماعت نماز کے
[1] صحیح البخاري، کتاب التہجد، باب من نام أول اللیل وأحیٰی آخرہ، رقم الحدیث ۱۱۴۶، ۳/ ۳۲۔ [2] صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب صلاۃ اللیل…، جزء من رقم الحدیث ۱۲۹۔ (۱۳۹)، ۱/ ۵۱۰۔ [3] شرح النووي ۶/ ۲۲، نیز ملاحظہ: عمدۃ القاري ۷/ ۲۰۲۔