کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 160
پہلی حدیث کے فوائد ذکر کرتے ہوئے علامہ عینی نے لکھا ہے: ’’ فِیْہِ جَوَازُ الْاِحْتِرَازِ عَمَّا یَحْتَمِلُ فَوَاتَ الْعِبَادَۃِ عَنْ وَقْتِہَا۔‘‘ [1] ’’عبادت کی بروقت ادائیگی کے فوت ہونے کے احتمال کا سبب بننے والے کام سے اجتناب کا جواز۔‘‘ ب:سفر کی بہت زیادہ تھکاوٹ اور نیند کے شدید غلبے کے باوجود پڑاؤ ڈال کر سونے سے پیشتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک روایت کے مطابق بلال رضی اللہ عنہ اور دوسری روایت کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز کے لیے جگانے کی ذمہ داری سونپنا۔ اے اللہ کریم! ہمیں اور ہماری اولادوں کو نمازِ فجر کے لیے یہ فکر اور اہتمام نصیب فرمائیے۔إِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔ ۳:صبح صادق سے کچھ دیر پہلے سوتے وقت لیٹ کر نہ سونا: امام مسلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا: ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم إِذَا کَانَ فِيْ سَفَرٍ،فَعَرَّسَ بِلَیْلٍ،اِضْطَجَعَ عَلٰی یَمِیْنِہٖ۔وَإِذَا عَرَّسَ قُبَیْلَ الصُّبْحِ،نَصَبَ ذِرَاعَہُ،وَوَضَعَ رَأْسَہُ عَلٰی کَفِّہِ ‘‘۔[2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات کو پڑاؤ ڈالتے،تو اپنی دائیں کروٹ پر لیٹتے۔اور اگر صبح(صادق)سے کچھ دیر پہلے اترتے،تو
[1] عمدۃ القاري ۵/ ۸۸۔ [2] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ، …، رقم الحدیث ۳۱۳۔ (۶۸۳)، ۱/ ۴۷۶۔