کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 158
تُوْقِظُنَا‘‘۔[1] ’’یعنی رات کی اس طرح حفاظت کرو،کہ طلوعِ فجر ہوتے ہی ہمیں جگا دینا۔‘‘ ج:امام مسلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا: جب کہ(ایک سفر میں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جارہے تھے،یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا۔ انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونگھے اور اپنی سواری سے جھکے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا،یہاں تک کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔‘‘ انہوں نے بیان کیا:’’پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلے،یہاں تک کہ رات کا اکثر حصہ بیت گیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے(ایک طرف)مائل ہوئے،تو میں نے آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا،تو آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے بیان کیا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلتے رہے،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے آخری وقت پہلے دونوں مرتبہ مائل ہونے سے زیادہ جھکے،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گرنے کے قریب ہوگئے۔میں نے آپ کے قریب آکر آپ کو سہارا دیا،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر(مبارک)اٹھایا اور دریافت فرمایا:’’یہ کون ہے؟‘‘ …… پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ ہَلْ تَرٰی مِنْ أَحَدٍ؟‘‘ ’’کیا تم کسی کو دیکھتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’یہ ایک سوار ہے۔‘‘
[1] فتح الملہم ۴/ ۴۸۳۔