کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 156
آنحضرت رضی اللہ عنہم کی سیرتِ طیبہ میں ان دونوں باتوں کی تفصیل جاننے کے لیے درجِ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیے:
ا:امام بخاری نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:
’’ سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم لَیْلَۃً،فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:’’لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔صلي اللّٰه عليه وسلم۔!‘‘
’’ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے۔بعض لوگوں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔اگر آپ آرام کے لیے پڑاؤ ڈال دیتے(تو بہتر ہوتا)۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ أَخَافُ أَنْ تَنَامُوْا عَنِ الصَّلَاۃِ ‘‘۔
’’مجھے خدشہ ہے،کہ تم نماز کے وقت سوتے نہ رہ جاؤ۔‘‘
بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’ أَنَا أُوْقِظُکُمْ‘‘۔
’’میں آپ کو جگاؤں گا۔‘‘
’’ فَاضْطَجَعُوْا ‘‘۔[1]،[2]
[1] (فَاضْطَجَعُوا) یعنی آنحضرت صلي الله عليه وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے جگانے کی ذمہ داری اٹھانے پر، حضراتِ صحابہ کو پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دی، تو وہ پڑاؤ ڈال کر لیٹ گئے۔
(فَاضْطَجِعُوْا) کو [صیغہ امر] بھی پڑھا گیا ہے، یعنی آنحضرت صلي الله عليه وسلم نے صحابہ کو لیٹنے کا حکم دیا۔ (ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۵/ ۸۸) ۔
[2] صحیح البخاري، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الأذان بعد ذہاب الوقت، جزء من رقم الحدیث ۵۹۵، ۴/ ۶۶۔