کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 154
قَعَدَ عَنِ الْجَمَاعَۃِ،وَلَمْ یُجِبِ الْمُؤَذِّنَ إِلٰی إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ فِيْ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔[1]
’’یعنی جب انہیں اذان واقامت کے ذریعے نمازوں کے لیے بلایا جاتا تھا اور وہ صحیح سالم اور نماز کے لیے آنے کی طاقت رکھتے تھے۔اس میں جماعت سے پیچھے رہنے اور مؤذن کی باجماعت نماز ادا کرنے کی خاطر دعوت قبول نہ کرنے پر وعید ہے۔‘‘
ج:جمعہ وجماعت سے غائب رہنے والے کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول:
امام ابن ابی شیبہ نے مجاہد کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے:
’’ اِخْتَلَفَ إِلَیْہِ رَجُلٌ شَہْرًا،یَسْأَلُہُ عَنْ رَجُلٍ یَصُوْمُ النَّہَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ،وَلَا یَشْہَدُ جُمْعَۃً وَلَا جَمَاعَۃً ‘‘۔
’’ایک شخص ایک ماہ تک ان کی خدمت میں،اس شخص کے بارے میں دریافت کرنے کی غرض سے آتا رہا،جو دن کو روزہ رکھتا،رات کو تہجد پڑھتا،لیکن جمعہ اور جماعت سے غائب رہتا۔‘‘
انہوں نے فرمایا:
’’ فِيْ النَّارِ ‘‘۔[2]
’’(وہ دوزخ کی)آگ میں(داخل ہوگا)۔‘‘
اے اللہ کریم! ہمیں اور ہماری اولادوں کو ایسے بدنصیب لوگوں میں شامل ہونے سے بچائے رکھنا۔آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
[1] التفسیر الکبیر ۳۰/۹۶۔
[2] المصنف، کتاب الصلوات، من قال: إذا سمع المنادي فلم یجب، ،۱/ ۳۶۴۔ نیز ملاحظہ ہو: جامع الترمذي، أبواب الصلاۃ، باب ما جاء فیمن یمسع النداء فلا یجیب، رقم الروایۃ ۲۱۸، ۱/ ۴۵۰۔