کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 153
وَالثَّانِیَۃُ:لَا تَحْصُلُ إِلَّا بِحُضُوْرِ الصَّلَاۃِ فِيْ الْجَمَاعَۃِ۔
وَہٰذَا ہُوَ الَّذِيْ فَہِمَہُ أَعْلَمُ الْأُمَّۃِ وَأَفْقَہُہُمْ مِنَ الْإِجَابَۃِ،وَہُمُ الصَّحَابَۃُ رضی اللّٰهُ عنہم ‘‘۔[1]
’’سلف میں سے متعدد حضرات نے ارشادِ ربّانی { وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ إِِلَی السُّجُودِ وَہُمْ سَالِمُوْنَ }۔کے متعلق کہا ہے:
وہ مؤذن کی[حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ،حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ] کے ذریعہ دعوت ہے۔اس دلیل کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
ان دونوں میں پہلی بات:اس دعوت کا قبول کرنا واجب ہے۔
دوسری بات:یہ(یعنی اس دعوت کی قبولیت)باجماعت نماز میں شمولیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔امت میں سے سب سے زیادہ علم اور دین کی سمجھ رکھنے والے(حضراتِ)صحابہ نے قبولیتِ(دعوت)کا یہی معنٰی سمجھا۔‘‘
ب:باجماعت نماز ترک کرنے پر وعید:
اس بارے میں دو مفسرین کے اقوال:
۱:حافظ ابن جوزی لکھتے ہیں:
’’ وَفِيْ ہٰذَا وَعِیْدٌ لِمَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔[2]
’’اس میں باجماعت نماز ترک کرنے والے کے لیے وعید ہے۔‘‘
۲:علامہ رازی نے تحریر کیا ہے:
{ وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ إِِلَی السُّجُودِ وَہُمْ سَالِمُوْنَ }۔یَعْنِيْ حِیْنَ کَانُوْا یُدْعَوْنَ إِلَی الصَّلَوَاتِ بِالْأَذَانِ وَالْإِقَامَۃِ،وَکَانُوْا سَالِمِیْنَ قَادِرِیْنَ عَلَی الصَّلَاۃِ۔وَفِيْ ہٰذَا وَعِیْدٌ لِمَنْ
[1] کتاب الصلاۃ ص ۶۵۔
[2] زاد المسیر ۸/ ۳۴۲۔