کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 150
کِفَایَۃٍ لَکَانَتْ قَائِمَۃً بِالرَّسُوْلِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَمَنْ مَعَہُ ‘‘۔[1]
’’(اس)باب کی حدیث اس(یعنی باجماعت نماز)کے[فرضِ عین] ہونے کے متعلق ظاہر ہے،کیونکہ اگر وہ سنّت ہوتی،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑنے والے کو خوب اچھی طرح جلانے کی وعید نہ سناتے۔اگر وہ[فرضِ کفایہ] ہوتی،تو وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ موجود صحابہ کے ذریعے سے ادا ہورہی تھی۔‘‘
۷:علامہ ابوبکر کاسانی حنفی باجماعت نماز کے وجوب کے دلائل کے ضمن میں اسی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ وَمِثْلُ ہٰذَا الْوَعِیْدِ لَا یَلْحَقُ إِلَّا بِتَرْکِ الْوَاجِبِ ‘‘۔[2]
’’اور ایسی وعید تو واجب ترک کرنے پر ہی ملتی ہے۔‘‘
۸:شیخ ابن باز لکھتے ہیں:
’’ظاہر ہے،کہ جو شخص کسی امرِ مستحب یا فرضِ کفایہ سے پیچھے رہے،تو اسے اس طرح سرزنش نہیں کی جاسکتی۔‘‘ [3]
تنبیہ:
حافظ ابن حجر پہلی حدیث سے معلوم ہونے والی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ وَفِیْہِ الرُّخْصَۃُ لِلْإِمَامِ أَوْ نَائِبِہِ فِيْ تَرْکِ الْجَمَاعَۃِ لِأَجْلِ
إِخْرَاجِ مَنْ یَسْتَخْفِيْ فِيْ بَیْتِہِ،وَیَتْرُکُہَا ‘‘۔[4]
’’اس میں باجماعت نماز چھوڑ کر گھروں میں چھپے رہنے والوں کو نکالنے کی غرض سے امام یا اس کے نائب کو جماعت ترک کرنے کی اجازت ہے۔‘‘
[1] فتح الباري ۲/ ۱۳۰۔
[2] بدائع الصنائع ۱/ ۱۵۵۔
[3] فتاویٰ اسلامیہ (مترجم) ۱/ ۴۷۴۔۔
[4] فتح الباري ۲/ ۱۳۰۔