کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 148
مقصود مطلوبہ اشخاص کو خوب اچھی طرح جلانا ہے اور گھروں(کے جلانے)کا حکم(ان میں)رہائش پذیر لوگوں کے حکم کے تابع ہے۔‘‘ امام مسلم کی روایت کردہ درجِ ذیل حدیث کے الفاظ میں اس کی صراحت ہے: ’’ ثُمَّ تُحَرَّقُ بُیُوْتٌ عَلٰی مَنْ فِیْہَا ‘‘۔[1] ’’پھر گھروں کو ان میں موجود لوگوں سمیت خوب اچھی طرح جلا دیا جائے۔‘‘ ز:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھروں کو ان میں موجود افراد سمیت خوب اچھی طرح جلانے کی خاطر قسم کھا کر پختہ عزم کا اظہار کرنا،ان لوگوں کے نماز چھوڑنے پر نہیں،بلکہ باجماعت نماز میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے تھا۔چوتھی روایت کے حسبِ ذیل الفاظ دوبارہ ملاحظہ فرمائیے: ’’ ثُمَّ آتِيْ قَوْمًا یُصَلُّوْنَ فِيْ بُیُوْتِہِمْ،لَیْسَتْ بِہِمْ عِلَّۃٌ،فَأُحَرِّقُہَا عَلَیْہِمْ ‘‘۔ ’’پھر میں ان لوگوں کے ہاں آؤں،جو بلا عذر اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں،تو ان کے گھروں کو ان پر خوب اچھی طرح جلا دوں۔‘‘ ح:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قسم کھا کر باجماعت نماز سے پیچھے رہنے والے لوگوں کو ان کے گھروں سمیت خوب اچھی طرح جلانے کے مصمّم ارادے کا اظہار اس گناہ کی سنگینی اور باجماعت نماز کی فرضیّت پر دلالت کرتا ہے۔ مزید اطمینان کی غرض سے انہی روایات کے حوالے سے آٹھ علمائے کرام کے بیانات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ۱:امام بخاری نے پہلی حدیث پر درجِ ذیل عنوان قلم بند کیا ہے: [بَابُ وُجُوْبِ صَلَاۃِ الْجَمَاعَۃِ] [2]
[1] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، رقم الحدیث ۵۲۳۔ (۲۵۱)، ۱/ ۴۵۲۔ [2] صحیح البخاري ۲/ ۱۲۵۔