کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 146
عَلٰی عِظَمِ شَأْنِہٖ ‘‘۔[1] ’’شک سے مبرّا بات کی شدید اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے قسم کھانے کا اس(حدیث)میں جواز ہے۔‘‘ ب:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی،دوسری اور چوتھی روایتوں میں اپنے ارادے کا اظہار[لَقَدْ ہَمَمْتُ] کے الفاظ کے ساتھ فرمایا۔علامہ عینی لکھتے ہیں: ’’(لَقَدْ ہَمَمْتُ)جَوَابُ الْقَسَمِ أَکَّدَہُ بِ[اللَّامِ،وَقَدْ]۔وَمَعْنٰی[ہَمَمْتُ]:أَيْ قَصَدْتُّ مِنَ الْہَمِّ،وَہُوَ الْعَزْمُ ‘‘۔[2] ’’[لَقَدْ ہَمَمْتُ](میں نے مصمّم ارادہ کیا)(یہ)قسم کا جواب ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید[لام اور قد] کے ساتھ فرمائی اور[ہَمَمْتُ] کا معنٰی[میں نے قصد کیا] اور یہ[ھمّ] سے ہے اور وہ[عزم] ہوتا ہے۔‘‘ ج:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی روایت میں[ایندھن] کے متعلق فرمایا: ’’ فَیُحْطَبُ ‘‘۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’ وَمَعْنٰی[یُحْطَبُ] یُکْسَرُ لِیَسْہُلَ اِشْتِعَالُ النَّارِ بِہٖ ‘‘۔[3] ’’[یُحْطَبُ] کا معنٰی اسے(یعنی ایندھن کو)توڑنا ہے،تاکہ اس کے ساتھ آگ کا بھڑکنا آسان ہوجائے۔‘‘ د:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی اور دوسری روایت میں:’’ فَأُحَرِّقُ ‘‘
[1] فتح الباري ۲/ ۱۲۹۔ [2] عمدۃ القاري ۵/ ۱۶۰؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۲/ ۱۲۹۔ [3] المرجع السابق ۷/ ۱۲۹؛ نیز ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۵/ ۱۶۱۔