کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 145
’’مسجد کے گرد وپیش کے لوگ باجماعت عشاء سے غیر حاضری سے ضرور باز آجائیں،وگرنہ میں ضرور ان کے گھروں کے گرد ایندھن کے گٹھے خوب جلاؤں گا۔‘‘ د:امام ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْیَتِيْ،فَیَجْمَعُوْا حُزَمًا مِنْ حَطَبٍ،ثُمَّ آتِيْ قَوْمًا یُصَلُّوْنَ فِيْ بُیُوْتِہِمْ،لَیْسَتْ بِہِمْ عِلَّۃٌ،فَأُحَرِّقُہَا عَلَیْہِمْ ‘‘۔[1] ’’یقینا میں نے پختہ ارادہ کیا ہے،کہ میں اپنے جوانوں کو حکم دوں،کہ وہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کریں،پھر ان لوگوں کے پاس آؤں،جو بلاعذر اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں،تو انہیں(یعنی ان کے گھروں کو)ان پر خوب اچھی طرح جلا دوں۔‘‘ ان روایات کے حوالے سے آٹھ باتیں: ا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی روایت میں گفتگو کا آغاز قسم سے فرمایا۔علامہ عینی نے لکھا ہے: ’’ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ! أَيْ وَاللّٰہِ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ ‘‘۔ ’’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ!یعنی اللہ کی قسم! جن کے ہاتھ میں میری جان ہے۔‘‘ اور قسم بلا شک وشبہ بات کی تاکید کا فائدہ دیتی ہے۔حافظ ابن حجر نے قلم بند کیا ہے: ’’ وَفِیْہِ جَوَازُ الْقَسَمِ عَلَی الْأَمْرِ الَّذِيْ لَا شَکَّ فِیْہِ تَنْبِیْہًا
[1] سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ترک الجماعۃ، رقم الحدیث ۵۴۵، ۲/ ۱۷۸۔ حافظ منذری لکھتے ہیں: اسے مسلم اور ترمذی نے اختصار سے روایت کیا ہے۔ شیخ البانی نے (لَیْسَتْ بِہِمْ عِلَّۃٌ ) [انہیں کوئی عذر نہیں] کے سوا باقی [حدیث کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مختصر سنن أبي داود ۱/ ۲۹۰؛ وصحیح سنن أبي داود ۱/ ۱۱۰)۔