کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 144
’’ لَیْسَ صَلَاۃٌ أَثْقَلَ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَائِ۔وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا۔
لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَیُقِیْمَ،ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا یَؤُمُّ النَّاسَ،ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَارٍ فَأُحَرِّقَ عَلٰی مَنْ لَا یَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاۃِ بَعْدُ۔‘‘ [1]
’’منافق لوگوں پر فجر وعشاء سے زیادہ گراں کوئی نماز نہیں۔اگر انہیں علم ہوجائے،کہ ان دونوں(نمازوں کی جماعت میں حاضری)کا کیا(اجر وثواب)ہے،تو وہ دونوں ہاتھوں اور گھٹنوں(یا سرین)پر گھسٹتے ہوئے(بھی)ان کے لیے پہنچ جائیں۔
بے شک میں نے پختہ ارادہ کیا ہے،کہ میں مؤذن کو حکم دوں اور وہ اقامت کہے،پھر ایک شخص کو لوگوں کی امامت کروانے کا حکم دوں،پھر میں آگ کے شعلے لے کر ان لوگوں پر خوب اچھی طرح آگ جلاؤں،جو ابھی تک نماز(باجماعت)کے لیے نہیں نکلے۔‘‘
ج:امام احمد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ لَیَنْتَہِیَنَّ رِجَالٌ مِمَّنْ حَوْلَ الْمَسْجِدِ لَا یَشْہَدُوْنَ الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ فِيْ الْجَمِیْعِ أَوْ لَأُحْرِقَنَّ حَوْلَ بُیُوْتِہِمْ بِحُزَمِ الْحَطَبِ ‘‘۔[2]
[1] صحیح البخاري، کتاب الأذان، باب فضل العشاء في الجماعۃ، رقم الحدیث ۶۵۷، ۲/ ۱۴۱؛ و صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، رقم الحدیث ۲۵۲۔ (۶۵۱)، ۱/ ۴۵۱۔۴۵۲۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔
[2] المسند، رقم الحدیث ۷۹۰۳، ۱۵/ ۴۰ (ط: دارالمعارف مصر)۔ حافظ ہیثمی نے لکھا ہے، کہ اس کے [راویان کی توثیق کی گئی ہے]، شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس [حدیث کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۲/ ۴۲؛ وہامش المسند للشیخ أحمد شاکر ۱۵/ ۴۰؛ وہامش المسند ۱۳/ ۲۹۴ [ط: الرسالۃ])۔