کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 143
مصمّم ارادے کا واضح الفاظ میں اظہار فرمایا۔اس بارے میں ذیل میں چار روایات ملاحظہ فرمائیے: ا:امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ! لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبُ،ثُمَّ آمُرُ بِالصَّلَاۃِ،فَیُؤَذَّنُ لَہَا،ثُمَّ آمُرُ رَجُلًا فَیَؤُمُّ النَّاسَ،ثُمَّ أُخَالِفُ إِلٰی رِجَالٍ،فَأُحَرِّقُ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَہُمْ۔وَالَّذِيْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ! لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُہُمْ أَنَّہُ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَہِدَ الْعِشَائَ‘‘۔[1] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں نے پختہ ارادہ کیا،کہ ایندھن(جمع کرکے)توڑا جائے،پھر میں نماز کا حکم دوں،تو اس کے لیے اذان دی جائے،پھر میں ایک شخص کو حکم دوں،تو وہ لوگوں کی امامت کروائے۔پھر میں(جماعت سے پیچھے رہنے والے)مَردوں کے پیچھے جاؤں اور ان پر ان کے گھروں کو اچھی طرح جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کسی ایک کو علم ہوجائے،کہ اسے(مسجد جانے پر)گوشت والی موٹی ہڈی یا دو اچھے پائے مل جائیں گے،تو وہ(نمازِ)عشاء میں حاضر ہوجاتا۔‘‘ ب:امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح البخاري، کتاب الأذان، رقم الحدیث ۶۴۴، ۲/ ۱۲۵؛ نیز ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، رقم الحدیث ۲۵۲۔ (۶۵۱)، ۱/ ۴۵۱۔ ۴۵۲۔