کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 141
’’ لَیَنْتَہِیَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِہِمِ الْجَمَاعَاتِ،أَوْ لَیَخْتِمَنَّ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ،ثُمَّ لَیَکُوْنُنَّ مِنَ الْغَافِلِیْنَ ‘‘۔[1] ’’لوگ ضرور جماعتیں(یعنی باجماعت نمازیں)چھوڑنے سے باز آجائیں،وگرنہ اللہ تعالیٰ یقینا ان کے دلوں پر مہریں لگا دیں گے،پھر وہ ضرور غافل لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ حدیث کے حوالے سے دو باتیں: ا:حدیث کی شرح: علامہ عبدالرؤوف مناوی لکھتے ہیں: ’’ مَعْنٰی ہٰذَا التَّرْدِیْدِ أَنَّ أَحَدَ الْأَمْرَیْنِ کَائِنٌ لَا مُحَالَۃَ:إِمَّا الْاِنْتِہَائُ عَنْ تَرْکِہَا أَوْ لَیَخْتِمَنَّ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ ‘‘۔[2] ’’اس[تردید][یعنی لفظ[أوْ] بمعنٰی[یَا]] سے مراد یہ ہے،کہ دو میں سے ایک بات ضرور ہوگی:اسے(یعنی باجماعت نماز)ترک کرنے سے باز آنا یا اللہ تعالیٰ کا ان کے دلوں پر مہر لگانا۔‘‘ ب:حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے تائیدی بیانات: ۱:حضراتِ ائمہ عبدالرزاق،ابن منذر،ابن ابی شیبہ اور ابن حزم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے فرمایا: ’’ مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یُجِبْ لَمْ یُرِدْ خَیْرًا،وَلَمْ یُرَدْ بِہٖ‘‘۔[3]
[1] سنن ابن ماجہ، أبواب المساجد، باب التغلیظ في التخلف عن الجماعۃ، رقم الحدیث ۷۷۸، ۱/ ۱۴۲۔ ۱۴۳۔ شیخ البانی اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابن ماجہ ۱/ ۱۳۲)۔ [2] ملاحظہ ہو: فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ۵/ ۳۹۷۔ [3] مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلاۃ، باب من سمع النداء، رقم الراویۃ ۱۹۱۷، ۱/ ۴۹۸؛ والأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، کتاب الإمامۃ، ذکر تخوّف النفاق علٰی تارک شہود العشاء والصبح في جماعۃ، رقم الروایۃ ۱۹۰۳، ۴/ ۱۳۷؛ ومصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلوات، من قال: إذا سمع المنادي فلیجب، ۱/ ۳۴۵؛ والمحلّی ۴۸۵… مسألۃ … ۴/ ۲۷۴۔ الفاظِ روایت مصنف عبدالرزاق اور الأوسط کے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں [أولم] [یعنی [یا نہیں]] ہے۔