کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 138
اسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ،فَعَلَیْکَ بِالْجَمَاعَۃِ،فَإِنَّمَا یَأْکُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِیَۃَ ‘‘۔[1] ’’جس بستی یا بادیہ(صحرا)میں تین اشخاص ہوں اور وہاں(باجماعت)نماز قائم نہ ہو،تو بے شک شیطان ان پر مسلط ہوجاتا ہے،پس تم جماعت اپنے اوپر لازم کرو،کیونکہ بھیڑیا دور رہنے والی(بکری)کھا جاتا ہے۔‘‘ زائدہ[2]نے بیان کیا:’’سائب [3] نے کہا: ’’ یَعْنِيْ بِالْجَمَاعَۃِ الصَّلَاۃَ فِيْ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔[4] ’’[جماعت] سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود باجماعت نماز ہے۔‘‘ حدیث کے حوالے سے دو باتیں: ا:حدیث پر بعض محدّثین کے تحریر کردہ عنوانات:
[1] سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، رقم الحدیث ۵۴۳، ۲/ ۱۷۶۔۱۷۷؛ وسنن النسائي، کتاب الإمامۃ، ۲/ ۱۰۶۔۱۰۷، ومسند الإمام ابن المبارک، رقم الحدیث ۷۳، ص ۴۲۔۴۳؛ والمسند، رقم الحدیث ۲۱۷۱۰، ۳۶/ ۴۲؛ وصحیح ابن خزیمۃ، کتاب الإمامۃ في الصلاۃ، رقم الحدیث ۱۴۸۶، ۲/ ۲۷۱؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبّان، کتاب الصلاۃ، باب فرض الجماعۃ والأعذار التی تبیح ترکہا، رقم الحدیث ۲۱۰۱، ۵/ ۴۵۷۔ ۴۵۹؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الصلاۃ، ۱/ ۲۴۶؛ وشرح السنۃ، کتاب الصلاۃ، ۳/ ۳۴۷۔ الفاظِ حدیث سنن النسائي کے ہیں۔ امام حاکم نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے، حافظ ذہبی نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے، شیخ البانی نے اسے [حسن صحیح] اور شیخ ارناؤوط، ان کے رفقاء اور شیخ شاویش نے اس کی [سند کو حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک علی الصحیحین ۱/ ۲۴۶؛ والتلخیص ۱/ ۲۴۶؛ وصحیح الترغیب والترہیب ۱/ ۳۰۱؛ وہامش المسند ۳۶/ ۳۲؛ وہامش الإحسان ۵/ ۴۵۸؛ وہامش شرح السنۃ ۳/ ۳۴۷)۔ [2] حدیث کے ایک راوی۔ [3] زائدہ کے استاد۔ [4] سنن النسائي ۲ / ۱۰۷