کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 135
’’ لَا یَشْہَدُہُمَا مُنَافِقٌ ‘‘۔ ’’یعنی منافق ان(دونوں نمازوں)میں حاضر نہیں ہوتا۔‘‘ اس روایت کے حوالے سے دو باتیں: ا:حدیث کے راوی ابوبشر نے اس کی شرح میں کہا ہے: ’’ یَعْنِيْ لَا یُوَاظِبُ عَلَیْہِمَا ‘‘۔ ’’یعنی وہ ان دونوں(نمازوں کی حاضری)پر مداومت نہیں کرتا۔‘‘ ب:علامہ سندھی اس کی شرح میں تحریر کرتے ہیں: ’’ فَشُہُوْدُہُمَا دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّ صَاحِبَہُ لَیْسَ بِمُنَافِقٍ،بَلْ مُؤْمِنٌ ‘‘۔[1] ’’ان دونوں میں حاضری(اس بات کی)دلیل ہے،کہ حاضر ہونے والا منافق نہیں،بلکہ مؤمن ہے۔‘‘ ان دونوں میں حاضری سے مراد … جیسا کہ ابوبشر کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے… ان میں شمولیت پر ہمیشگی اور اہتمام کرنا ہے۔وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔ ۴:امام ابن قیم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے باجماعت نماز کی فرضیّت پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ فَوَجْہُ الدَّلَالَۃِ أَنَّہُ جَعَلَ التَّخَلُّفَ عَنِ الْجَمَاعَۃِ مِنْ عَلَامَاتِ الْمُنَافِقِیْنَ،اَلْمَعْلُوْمُ نِفَاقُہُمْ،وَعَلَامَاتُ النِّفَاقُ لَا تَکُوْنُ بِتَرْکِ مُسْتَحَبٍّ وَلَا بِفِعْلِ مَکْرُوْہٍ۔وَمَنِ اسْتَقْرَأَ عَلَامَاتِ النِّفَاقِ فِيْ السُّنَۃِ وَجَدَہَا إِمَّا تَرْکُ فَرِیْضَۃٍ أَوْ فِعْلُ مُحَرَّمٍ۔
[1] منقول از: ہامش المسند ۴۳/ ۱۸۷۔