کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 132
ہوئے کہا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مَا یَشْہَدُہُمَا مُنَافِقٌ۔‘‘ یَعْنِي الْعِشَائَ وَالْفَجْرَ۔[1] ’’منافق ان دونوں … یعنی عشاء وفجر … میں حاضر نہیں ہوتا۔‘‘ و:امام مسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے فرمایا: مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَلْقَی اللّٰہَ غَدًا مُسْلِمًا فَلْیُحَافِظْ عَلٰی ہَؤُلَائِ الصَّلَوَاتِ حَیْثُ یُنَادٰی بِہِنَّ،فَإِنَّ اللّٰہَ شَرَعَ لِنَبِیِّکُمْ سُنَنَ الْہُدٰی،وَإِنَّہُنَّ مِنْ سُنَنِ الْہُدٰی۔وَلَوْ أَنَّکُمْ صَلَّیْتُمْ فِيْ بُیُوْتِکُمْ کَمَا یُصَلِّيْ ہٰذَا الْمُتَخَلِّفُ فِيْ بَیْتِہٖ لَتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ،وَلَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ … وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا إِلَّا مُنَافِقٌ،مَعْلُوْمُ النِّفَاقِ۔[2] جو شخص کل(یعنی روزِ قیامت)اللہ تعالیٰ سے حالتِ اسلام میں ملاقات کرنا پسند کرے،تو وہ ان نمازوں کی،جہاں بھی ان کے لیے بلایا جائے،حفاظت کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے مقرر فرمادیے ہیں اور بلاشبہ وہ(یعنی اذان سن کر مسجد
[1] المصنف، کتاب الصلوات، في التخلف في العشاء والفجر، وفضل حضورہما، ۱/ ۳۳۲؛ والمسند، رقم الحدیث ۲۰۵۸۰، ۳۴/ ۱۸۷۔ الفاظِ حدیث المصنف کے ہیں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: اسے ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصور نے [صحیح سند] کے ساتھ روایت کیا ہے۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو جید] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۲/ ۱۲۷؛ وہامش المسند ۳۴/ ۱۸۷)۔ [2] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الہدی، رقم الروایۃ ۲۵۷۔ (۶۵۴) باختصار، ۱/ ۴۵۳ ۔