کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 131
کے ساتھ(بھی)الفت نہیں کی جاتی،رات کو لکڑیوں کی مانند ہوتے اور دن میں شور وغوغا کرتے ہیں۔‘‘ د:امام طبرانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لَوْ أَنَّ رَجُلًا دَعَا النَّاسَ إِلٰی عَرْقٍ أَوْ مِرْمَاتَیْنِ لَأَجَابُوْہُ،وَہُمْ یُدْعَوْنَ إِلٰی ہٰذِہِ الصَّلَاۃِ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَلَا یَأْتُوْنَہَا۔لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا أَنْ یُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِيْ جَمَاعَۃٍ،ثُمَّ أَنْصَرِفُ إِلٰی قَوْمٍ سَمِعُوْا النِّدَائَ،فَلَمْ یُجِیْبُوْا فَأَضْرِمُہَا عَلَیْہِمْ نَارًا،إِنَّہُ لَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا إِلَّا مُنَافِقٌ ‘‘۔[1] ’’اگر کوئی آدمی لوگوں کو معمولی سے گوشت والی ہڈی یا بکری کے دو پایوں سے چمٹے ہوئے گوشت کی طرف بلائے،تو وہ اس کی دعوت قبول کرتے ہیں اور صورتِ حال یہ ہے،کہ انہیں اس نماز کے لیے دعوت دی جاتی ہے،تو وہ نہیں آتے۔بے شک میں نے پختہ ارادہ کیا ہے،کہ ایک آدمی کو حکم دوں،کہ وہ لوگوں کو باجماعت نماز ادا کروائے،پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں،جو اذان سننے کے باوجود آئے نہیں اور ان پر آگ جلاؤں۔بلاشبہ اس سے(یعنی نماز باجماعت سے)منافق ہی پیچھے رہتا ہے۔‘‘ ہ:امام ابن ابی شیبہ اور امام احمد نے ابوعمیر بن انس سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے کہا:’’میرے انصاری چچاؤں نے مجھ سے حدیث بیان کرتے
[1] منقول از: مجمع الزوائد، کتاب الصلاۃ، ۲/ ۴۳۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں، کہ اسے طبرانی نے [المعجم] الأوسط میں روایت کیا ہے اور [اس کے راویان کی توثیق] کی گئی ہے، علامہ عینی نے اس کی [سند کو جید] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/ ۴۳؛ وعمدۃ القاري ۵/ ۱۶۳)۔