کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 127
’’جسے مؤذن سناتا ہے۔‘‘(یعنی جس شخص تک مؤذن کی آواز پہنچتی ہے۔) ب:امام ابن شیبہ اور امام ابن منذر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے فرمایا: ’’ مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ،فَلَمْ یَأْتِہِ لَمْ تُجَاوِزْ صَلَاتُہُ رَأْسَہُ إِلَّا بِالْعُذْرِ ‘‘۔[1] ’’جس شخص نے اذان سنی،پھر(باجماعت نماز کے لیے)نہ آیا،تو اس کی نماز اس کے سر کے اوپر نہیں اٹھی،سوائے عذر کے۔‘‘(یعنی بوجۂ عذر جماعت کے بغیر ادا کی ہوئی نماز کی قبولیت متوقع ہے۔) ۲:امام ابن ابی شیبہ اور امام ابن منذر نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے فرمایا: ’’ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِي،ثُمَّ لَمْ یُجِبْ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ ‘‘۔[2] ’’جس شخص نے منادی کرنے والے(یعنی مؤذن)کو سنا،پھر عذر نہ ہونے کے باوجود(اس کی دعوت)قبول نہ کی(یعنی باجماعت نماز کی
[1] المصنف، کتاب الصلوات، باب من قال: ’’إذا سمع المنادي فلیجب‘‘، ۱/ ۳۴۵؛ والأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، کتاب الإمامۃ، ذکر تخوّف النفاق…، رقم الروایۃ ۱۹۰۱، ۴/ ۱۳۶۔ الفاظِ روایت مصنف ابن ابی شیبہ کے ہے۔ [2] المصنف، کتاب الصلوات، باب من قال: ’’إذا سمع المنادي فلیجب‘‘، ۱/ ۳۴۵؛ والأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، کتاب الإمامۃ، ذکر تخوّف النفاق…، رقم الروایۃ ۱۹۰۲، ۴/ ۱۳۶۔ نیز ملاحظہ ہو: المحلّٰی، ۴۵۸۔ مسألۃ۔ ۴/ ۲۷۴۔