کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 126
کی اجازت نہیں۔‘‘
ب:اس بارے میں بعض صحابہ کے اقوال:
امام ترمذی لکھتے ہیں:
’’ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنَّہُمْ قَالُوْا:’’ مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یُجِبْ،فَلَا صَلَاۃَ لَہُ ‘‘۔
’’متعدد صحابہ سے نقل کیا گیا ہے،کہ انہوں نے فرمایا:’’جو شخص اذان سن کر(باجماعت نماز کے لیے)نہ آیا،تو اس کی نماز نہیں۔‘‘ [1]
بطورِ مثال ذیل میں تین صحابہ کرام کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
ا:حضراتِ ائمہ عبدالرزاق،ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے فرمایا:
’’ لَا صَلَاۃَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ إِلَّا فِيْ الْمَسْجِدِ ‘‘۔
’’مسجد کے پڑوسی کی مسجد کے علاوہ نماز نہیں۔‘‘
انہوں[راوی] نے بیان کیا:’’(ان کی خدمت میں)عرض کیا گیا:
’’ وَمَنْ جَارُ الْمَسْجِدِ؟‘‘
’’اور مسجد کا پڑوسی کون ہے؟‘‘
انہوں نے فرمایا:
’’ مَنْ أَسْمَعَہُ الْمُنَادِيْ ‘‘۔[2]
[1] جامع الترمذي ۱/ ۵۳۹۔
[2] مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلاۃ، باب من سمع النداء، رقم الروایۃ ۱۹۱۵، ۱/ ۴۹۷۔ ۴۹۸؛ ومصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الصلوات، باب من قال: ’’إذا سمع المنادي فلیجب‘‘، ۱/ ۴۳۹؛ والأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، کتاب الإمامۃ، ذکر تخوّف النفاق علٰی تارک شہود العشاء والصبح في جماعۃ …، رقم الروایۃ ۱۹۰۷، ۴/ ۱۳۷۔ الفاظِ روایت مصنف عبدالرزاق کے ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو: المحلّٰی ۴۸۵۔ مسألۃ … ۴/ ۲۷۴۔ ۲۷۵۔ المحلّٰی کے محقق نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش المحلّٰی ۴/ ۲۷۵)۔