کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 125
[بَابٌ فِيْ التَّشْدِیْدِ فِيْ تَرْکِ الْجَمَاعَۃِ ] [1]
[جماعت ترک کرنے پر سختی کے متعلق باب]
۲: امام ابن ماجہ نے اسے درجِ ذیل عنوان والے باب میں روایت کیا ہے:
[بَابُ التَّغْلِیْظِ فِيْ التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَۃِ ]۔[2]
[جماعت سے پیچھے رہنے پر درشتی کے بارے میں باب]
۳: امام ابن منذر لکھتے ہیں:
’’ وَدَلَّ عَلٰی تَأکِیْدِ أَمْرِ الْجَمَاعَۃِ قَوْلُہٗ صلي اللّٰه عليه وسلم:’’مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یُجِبْہُ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ ‘‘۔[3]
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد[ترجمہ:جس شخص نے اذان سن کر اسے قبول نہ کیا،[4] تو اس کی نماز نہیں] جماعت کے حکم کی تاکید کرتا ہے۔‘‘
۴: امام ابن حبان نے اس پر حسبِ ذیل عنوان لکھا ہے:
[ذِکْرُ الْخَبْرِ الدَّالِّ عَلٰی أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتْمٌ لَا نَدْبٌ ] [5]
[اس بات پر دلالت کرنے والی حدیث کا ذکر،کہ یہ[یعنی باجماعت نماز ادا کرنے کا] حکم حتمی ہے،استحباب کے لیے نہیں]
۵: امام بغوی اسے روایت کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
’’ اِتَّفَقَ أَہْلُ الْعِلْمِ عَلٰی أَنَّہُ لَا رُخْصَۃَ فِيْ تَرْکِ الْجَمَاعَۃِ لِأَحَدٍ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ ‘‘۔[6]
’’اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے،کہ کسی کے لیے(بھی)ترکِ جماعت
[1] سنن أبي داود ۲/ ۱۸۰۔
[2] سنن ابن ماجہ ۱/ ۱۴۲
[3] الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، کتاب الإمامۃ، ۴/ ۱۳۵۔
[4] یعنی باجماعت نماز ادا کرنے کی غرض سے مسجد میں حاضر نہ ہوا۔
[5] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان ۵/ ۴۱۵۔
[6] شرح السنۃ ۳/ ۳۴۸۔