کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 123
کہ جماعت میں حاضری فرض ہے،(صرف)مستحب نہیں] ز:امام احمد نے لکھا ہے: ’’ فَلَوْ کَانَ لِأَحَدٍ عُذْرٌ فِيْ التَّخَلُّفِ لَرَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم لِشَیْخٍ ضَعِیْفِ الْبَدَنِ،ضَرِیْرِ الْبَصَرِ،شَاسِعِ الدَّارِ،بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ نَخْلٌ وَ َوادٍ۔‘‘ [1] ’’اگر کسی شخص کے لیے جماعت سے پیچھے رہنے کا عذر ہوتا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوڑھے،کمزور بدن والے،نابینے،مسجد سے دور گھر والے شخص کو،کہ جس کے گھر اور مسجد کے درمیان کھجوروں کے درخت اور وادی تھی،اس کی اجازت دے دیتے۔‘‘ ح:شیخ ابن باز لکھتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوا،کہ جب ایک اندھے شخص کے لیے ترکِ جماعت کی رخصت نہیں،تو بینا کے لیے تو بالاولیٰ رخصت نہیں۔‘‘ [2] خلاصۂ گفتگو یہ ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیکرِ شفقت اور مجسمۂِ رحمت ہونے کے باوجود،سات عذر پیش کرنے والے صحابی کو مسجد میں حاضر ہو کر باجماعت نماز ادا کرنے کا تاکیدی حکم ارشاد فرمایا اور ان کے لیے اس بات کو واضح کیا،کہ ان کے لیے گھر میں نماز پڑھنے کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں۔جب ان سات عذروں کے باوجود مسجد میں باجماعت نماز چھوڑنے کی رخصت نہیں،تو بلاعذر،یا ان میں سے بعض عذروں کی بنا پر اسے ترک کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟
[1] الصلاۃ لإمام أہل السنۃ أحمد بن حنبل ص ۸۶۔ [2] فتاویٰ اسلامیہ (مترجم) ۱/ ۴۷۴۔